کالم

عروس البلاد میں چند روز

کراچی روشنیوں کا شہر ویسے ہی نہیں کہلاتا برقی قمقموں کی روشنیاں اگر آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں تو نظارے مسحورسندھ کی سر زمین زرخیز اور باسی مہمان نواز اور کریم اگر اس کی سونا اگلتی زمینوں کو ہوس بنجر نہ کرے اور کراچی جیسے شہر کہ جسے قدرت نے ساحل سے بھی نواز رکھا ہے کو ہماری کوہتایاں آباد نہ ہونے دیں تو بات الگ، مگر اللہ نے اس خطہ پر جو کرم نوازیں کر رکھی ہیں وہ بے حساب ہیں،کراچی نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر بلکہ صنعتی، تجارتی، تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بھی ساحل سمندر پر بلند بالا عمارات اور تیز رفتار زندگی دیکھ کر اگر کراچی پر جدید ملک کے شہر کا گماں ہوتا ہے تو اندرون سندھ کی آبادیوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو بھی روتا ہے،دنیا بھر میں جن جن ممالک کو سمندر کے ساتھ ساحل میسر ہے وہاں کی حکومتیں اسے سیاحت کے دلکش اور پر آسائش بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں، مگر کراچی کے ساحل پر صفائی ستھرائی کا اعلی انتظام ہے نہ عالمی معیار کی حامل تفریح گاہیں اور سہولیات بلکہ ہماری قومی روایت نے ساحل اور ساحلی پانی کو بھی گدلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ،کلفٹن منوہڑہ، ہاکس بے، سی ویو، ڈی ایچ اے مرینا کلب، فرنچ بیچ، پورٹ فا¶نٹین اور پیراڈائز پوائنٹ اس کے نظاروں کو اور بھی دوبالا کر سکتے ہیں اگر متعلقہ وزارت اور صوبائی حکومت اس پر توجہ دے
عالمی کنونشنز کے تحت ساحل سمندر والے ممالک کو حدود و قیود کا پابند کیا گیا ہے جس کے تحت وہ ملک 200 سمندری میل تک پانی کے اوپر نیچے تک فوائد حاصل کر سکتے ہے، ماہی گیری سے لیکر پٹرولیم کے ڈخائر تک کرہ ارض پر 70 فی صد سمندر اور اس کی وسعتیں اتنی کہ تمام تر وسائل کے باوجود انسان ابھی تک سمندری حیات اور ذخائر کا محض 15 فی صد سے کم ہی دریافت کر پایا ہے،دنیا بھر میں 80 فی صد تجارت سمندر کے راستے جبکہ پاکستان کی 70 فی صد اس کے ذریعے اگر حکومتیں صرف اس پر ہی دیانت داری سے توجہ دیں تو پاکستان کی معیشت میں انقلاب کو روکا نہیں جا سکتا. جبکہ اب گوادر بھی معاشی استحکام کے دروازے کھولے بیٹھا ہے۔قدرت کی ان فیاضیوں کو بروئے کار لانا ہماری ذمہ داری مگر ہم ہی اس میں کوہتائی کے مرتکب ہو کر در در سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں35 سو مربع کلو میٹر پر پھیلے اس شہر کی آبادی سرکاری ذرائع کے مطابق دو کروڑ تین لاکھ جبکہ اہل کراچی کسی طور اسے تین کروڑ سے کم ماننے کو تیار نہیں۔مردم شماری نتائج میں اگر غیر قانونی رہائش پذیر غیر ملکیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو عدد شاید سوا دو کروڑ تک جا پہنچے مگر کراچی کے نمائندگان کا گلہ ہے کہ آبادی کو کم ظاہر کر کے کراچی کے حصہ کے وسائل پر کٹ مارا جاتا ہے،بہر حال جو بھی ہو اسے انسانوں کا چلتا پھرتا سمندر کہا جا سکتا ہے،کراچی میں چند روز قیام ہو اور سید عبداللہ شاہ غازی کی بارگاہ میں حاضری نہ ہو، ممکن نہیں،برخوردار عمیر جرال اور اہلیہ کے ھمراہ میزبان احمد حسن کو مطلع کیے بغیر ناشتہ کے بعد مزار کی طرف نکل پڑے کہ دیگر شہروں کے برعکس کراچی میں کاروباری طبقات کی صبح دوپہر ایک کے بعد ہی ہوتی ہے پھر رات بھر روشنیاں جگمگاتی اور کاروبار زندگی چلتا ہے۔
سو ان آداب کے پیش نظر ہی اپنے طور پر حاضری کی ٹھانی،پنجاب اور دیگر صوبوں کے بہت ہی کم لوگ خانوادہ رسول کے چشم و چراغ سید عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں،آپ کے والد گرامی نفس زکیہ اور بنو عباس کے مظالم کے خلاف جد و جہد پر خلیفہ منصور کے حکم پر آپ کو دریائے سندھ کے کنارے شہید کیا گیا. آپ کے جانثاروں نے آپکے جسد خاکی کو بے حرمتی کے خطرہ کے پیش نظر دور سمندر کے اندر اس چٹان پر دفن کیا،امام حسن علیہ السلام کے پڑہوتے نے سندھ میں کم و بیش 12 سال دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا اور سینکڑوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا،اہل سندھ و کراچی کی خوش بختی کہ معروف تابعی(تبع تابعی) اور خانوادہ رسول کے عظیم فرزند حضرت عبداللہ شاہ غازی ؒ نے اسے اپنے قدوم میمنت لزوم سے منور کیا اور یہ خاندان رسول کے پہلے فرد تھے جو سندھ دھرتی پر نہ صرف آباد بلکہ یہیں آسودہ خاک بھی ہوئے،کم و بیش سندھ کے ہر باسی کے خیال میں ہے اور جسے دوران قیام سنا بھی، کہ شہزادہ بتول کی برکات سے ہر بار بڑے اور طاقتور سمندری طوفان کراچی کے ساحل سے دور ہی سلامی دیکر گزر جاتے ہیں۔
نمکین پانی کے سمندر میں اونچی چٹان پر میٹھے پانی کا چشمہ شہادت کے بعد آپ کی کرامت کا زندہ ثبوت کہ جگر گوشہ بتول کا چشمہ فیض اب بھی جاری ہے ظاہری بھی اور باطنی بھی مگر ہر کوئی اپنے ظرف اور استعداد کے مطابق پیاس بجھاتا ہے،میری یادداشت اتنی محو نہیں ہوئی کہ اس بار کم و بیش تین دھائیوں کے بعد جب مزار پرانوار پر حاضری ہوئی تو اطراف میں بلند و بانگ عمارات دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ پہلی بار مزار شریف کے عقبی دیوار سے سمندر کا پانی ٹکراتا تھا. میزبانوں سے یہ عقدہ کھلا کہ گزشتہ تین عشروں میں سمندر کافی پیچھے ہٹا ہے،شہر کراچی نے ہر رنگ و نسل اور ہر قوم کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے. کے پی اور بلوچستان کی بہت بڑی آبادی یہاں کی معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل گرچہ اس شہر پناہ پہ تنی امن کی چادر کو سال ہا سال شر پسندوں نے تار تار کیا لسانیت کو ہوا دی گئی اور قتل و غارت گری ایسی کہ الاماں الحفیظ مگر قدرت کی لاٹھی بے آواز کہ درندے نہ صرف نشان عبرت بنے بلکہ بے نشاں بھی ہو گئے ،شہر کی رونقیں دوبارہ لوٹ رہی ہیں اور خوف کی فضا ختم. بتایا گیا کہ اس ضمن میں رینجرز نے اہم کردار ادا کیا اب بھی اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کو سیاسی دبا¶ سے آزاد کیا جائے تو راہزنی اور چھینا چھپٹی کو کنٹرول اور امن کو مکمل بحال کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے