کالم

عزم استحکام آپریشن آخر کیوں؟

عام پاکستانی تاحال یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ عزم استحکام آپریشن کی مخالفت آخر کیوں کی جارہی ہے، مثلا اس حقیقت سے کیونکر صرف نظر کیا جارہا کہ آج چین جیسے آزمودہ دوست کو بھی کھلے عام کہہ رہا کہ سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنانی ہوگی ، بادی النظر میں پاکستان تحریک انصاف ، جمیت علما اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی اور ان کی ہم خیال جماعتیں زمینی حقائق پر توجہ مرکوز کرنے کو تیار نہیں، یہ نقطہ اہم ہے کہ ماضی میں کیے گے آپریشن آخر مکمل کامیابی سے کیونکر ہمکنار نہیں ہوئے مگر اس سوال کو بنیاد بنا کر یہ کہنا ہرگز مناسب نہیں کہ ارض وطن پر اب عزم استحکام آپریشن کی کوئی گنجائش نہیں، حوصلہ افزا یہ ہے کہ حکومت نے عزم استحکام آپریشن بارے اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے ، شبہازشریف حکومت یہ وضاحت بھی کرچکی کہ عزم استحکام آپریشن کوئی نیا آپریشن نہیں بلکہ یہ قومی ایکشن پلان کا ہی تسلسل ہے جس پر سالوں سے عمل درآمد جاری ہے ، پاکستان تحریک انصاف ، جمیت علما اسلام (ف) اور عوامی نشینل پارٹی جیسے جماعتوں کو بجا طور پر سوچنا ہوگا کہ اگر خبیر تا کراچی قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا تو ملکی سرمایہ کار ہی نہیں غیر ملکی تجارتی کمپنیاں بھی پاکستان میں کسی صورت اپنا پیسہ نہیں لگائیں گی ، پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی قیمت چکا رہا ہے ، ماضی میں روس کے افغانستان پرحملے کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد نے ارض وطن کے باسیوں کے مسائل میں اضافہ کیا ، اب سوال یہ نہیں کہ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد ہماری پالیسی کس حد تک حقیقت پسندانہ یا پھر پاکستان کے مفادات کے عین مطابق رہی ، مثلا آج جب ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو علم وعقل کی روشنی میں یہ کہنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ کاش اس وقت ہم ایسے اقدمات اٹھاتے جو آج پاکستان کے لیے مشکلات ومصائب پیدا نہ ہونے دیتے ، وزیر اعظم شبہازشریف کا یہ پختہ عزم قابل ستائش ہےکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑسے اکھاڈے بغیر ملکی خوشحال وترقی ممکن نہیں ،”دراصل گلوبل ویلج بن جانے والی اس دنیا میں کئی دہائیوں تک امن وامان کی صورت حال کا ٹھیک نہ ہونا یقینا ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے ، وقت آگیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرنے والی سیاسی قوتیں تعمیری تجاویز کے ساتھ آگے بڑھیں اور پاکستان کو اس ناسور سے نکلنے کےلئے اپنا اخلاص ثابت کریں ، ایک نقطہ نظر ہے کہ اففانستان میں قائم طالبان حکومت درپردہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کی ہم خیال پرتشدد گروہوں کو مدد اور اعانت فراہم کررہی ہے ، اس ضمن میں جو ٹھوس وجوہات بتائی جاتی ہیں انھیں کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، مثلا جب یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان مسلکی یا فقہی اعتبار سے ایک ہی ہیں تو یہ ہرگز غلط نہیں، گزرے ماہ وسال میں پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی کرنے والی ٹی ٹی پی ملاعمر کو اپنا امیر تسلیم کرچکی ، جہاد کے حوالے سے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے نقطہ نظر میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں چنانچہ یہ خارج ازمکان نہیں کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کی پرتشدد کاروائیوں کی سرپرستی کرکے پاکستان کو دباو میں لانے کی پالیسی پر کاربند ہوں ، کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ ماضی کی ہمارے حکومتی ذمہ داروں کا یہ تاثر قطعی طور پربے بنیاد ثابت ہوا کہ افغان طالبان کے کابل میں برسر اقتدار آنے سے پاکستان کی مشکلات میں نمایاں کمی واقع ہوگی ، اس کے برعکس آج ٹی ٹی پی کی کاروائیاں جہاں عام پاکستانیوں میں خوف اور عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا چکیں وہی چین جیسا ہمارا دوست ملک بھی اپنے خدشات کھلے عام بتانے پر مجبور ہوا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان آج اس صورت حال پر بجا طور پر فکر مند ہیں، شبہازشریف سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پے درپے ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں سے جہاں ملکی سرمایہ کاروں کےا عتماد کو ٹھیس پہنچ رہا ہے وہی دوست ممالک بھی پاکستان میں کاروبار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں، افسوس صد افسوس کہ پاکستان کے بدخواہ درپیش حالات پر خوشی کے شادیانہ بجا رہے ہیں، ملک میں ایک طرف مہنگائی کا طوفان عام آدمی کو متاثر کررہا ہے جبکہ دوسری جانب دہشت گردی کاروائیاں ہمارے لیے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکی ہیں ، وقت آگیا ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادت کی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کریں ، زمہ دارنہ طرزعمل کا بجا طور پر تقاضا ہے کہ جس سیاسی جماعت کو آپریشن استحکام پاکستان پر اعتراض ہے تو وہ میڈیا کی بجائے حکومت ذمہ داروں سے براہ راست بات کرے ، یاد رہے کہ جب ہم ملک کو تماشہ بنانے کی کوشش کریں گے تو اس کا نقصان پاکستان اور اس کی عوام کو براہ راست ہوگا، بتایا جارہا ہے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے محرم کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کسی طور پر خارج ازمکان نہیں، اب جو کام اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو کرنا ہے وہ یہ کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کی حکومتی کوششوں میں بھرپور معاونت کریں تاکہ عوام اور تاریخ دونوں کی نظر میں سرخرو ہوسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے