کالم

عزیر احمد خان کاتکلف برطرف ڈی جی خان واقعہ کا ذمہ دارکون۔۔۔؟

امریکہ کی نئی چال، کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مترادف
یوں تو قوم تباہ حال ہے ، کبھی مہنگائی کے ہاتھوں ، کبھی بے روزگاری کے ہاتھوں ، کبھی سیاسی دگرگوں حالات کے ہاتھوں لیکن ڈی جی خان میں ایک ایسا کربناک واقعہ پیش آیا جس کو پڑھ کر آنکھیں ہی کترا گئی ، کیا مدینے جیسی ریاست بنانے کے دعوے دار اس کے ذمہ دار ہے ، انتظامیہ ذمہ دار ہے ، سکولز ذمہ دار ہے یا یہ نظام ذمہ دار ہے ، نوٹس لے لیا گیا مگر کیا ہوا، زندگی تو واپس نہیں آسکتی جن والدین کا لال گیا ان سے پوچھے وہ لخت جگر کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے ۔ سرکاری سکول میں بارہ سالہ طالبعلم کو خونخوار کتوں نے بھنبھوڑڈالا اور بعد ازاں وہ بچہ جانبر نہ ہوسکا، جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے سرکاری سکول میں چھ کتوں نے ساتویں جماعت کے طالبعلم پر حملہ کردیا ، جب معصوم طالبعلم خوفزدہ ہوکر بے ہوش گیا تو کتے اسے نوچتے رہے ، ریسکیو والے بھی تاخیر سے پہنچے ، زخمی بچے کو موٹر سائیکل پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گیا ،وزیر اعلیٰ پنجاب کمشنر ڈیرہ غازی خان سے رپورٹ طلب کرلی اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دینے کی ہدایت ، بزدار کا بہت احسن اقدام ہے لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ پنجاب حکومت کے وہ سربراہ ہیں ، تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے ، ہدایات کیا دیں اس وقت تک کارروائی ہوجانی چاہیے تھی لیکن ہمیشہ ماضی کی طرح پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی تاکہ وہ غفلت کے ذمہ داروں کا تعین کرے ،یہاں پر ذمہ داروں کا تعین ہوتے ہوتے کمیٹیوں کی رپورٹیں کہیں گم ہوجاتی ہیں ، انصاف کے طلبگار کو انصاف نہیں ملتا ، ضلعی انتظامیہ بھی اس کی ذمہ دار ہے ، آوارہ کتوں کے حوالے سے کیا پالیسی اپنائی گئی یہ مسئلہ صرف ڈی جی خان کا نہیں ،ملک بھر میں درپیش ہے حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت تک میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے ، رات گئے سڑکوں پر اکثر لوگ ان کتوں سے مضروب ہوتے ہیں ، غول کے غول سڑکوں پر پھر رہے ہوتے ہیں مگر متعلقہ انتظامیہ کوئی توجہ نہیں دیتی ، آئے دن یہ خبریں پڑھنے اور دیکھنے میں آرہی ہوتی ہے کہ فلاح شہر میں معصوم بچے کو کتے نے کاٹ دیا ، سندھ میں بھی ایسے بہت زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں ، سونے پر سہاگہ یہ کہ متعلقہ دوا تک ناپید ہوجاتی ہے جس طرح اس وقت معمولی بخار کی گولی بازار میں نہیں مل رہی ، وزیر اعلیٰ پنجاب نے تو اس کا بھی نوٹس لیا مگر کیا نتیجہ نکلا ، جس گولی کا پتا 20روپے کا تھا وہ 50روپے کا فروخت ہورہا ہے ، غریب عوام کو تو آئے دن ہی حکومت گولیاں دے رہی ہے مگرحالات اس وقت یہ بتارہے ہیں کہ معاملات کنٹرول سے باہر نکل چکے ہیں ، بنیادی ضروریات کی چیزیں ناپید ہے ، عوام دربدر ہے ، کوئی پرسان حال نہیں ، کسی کی کوئی شنوائی نہیں ، با اختیار عیش کررہا ہے ، بے اختیار خوار ہورہا ہے ، یہی المیہ ہے اس حکومت کا بنیادی حقائق سے نابلد ہوکر فیصلے کئے جاتے ہیں ، ہدایات دی جاتی ہیں لیکن عمل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات کا انتخاب کرے اور جو بھی ہدایات احکامات دیئے جائیں ان کا ایک ٹائم فریم مقرر کیا جائے تاکہ عوام کو انصاف مل سکے ،اتنی بڑی بڑی تنخواہوں اور سہولیات لے کر بیٹھے ہوئے افسران اگر ایک ضلع کے معاملات کو نہیں سنبھال سکتے تو پھر اللہ ہی حافظ اسی طرح عوام کو کتے بھنبھوڑتے رہیں گے ، وہ مرتے رہیں گے ، طبی امداد ناپید رہے گی ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri