کالم

”عشق توفیق ہے،گناہ نہیں ”

محبت کیا ہے؟.اس کے بارے فلسفیوں اور شاعروں نے بہت کچھ لکھا ہے یہ ایک جذبہ ہے،انپس اور پیار کے انتہائی مرحلے پر اسے عشق بھی کہتے ہیں،محبت ہو جاتی ہے، کسی عام شے سے بھی ہوسکتی ہے،یہ شدید بھی ہوتی ہے جو جان لینے اور دینے سے بھی گریز نہیں کرتی،محبت کی کئی اقسام ہیں،ان میں شخصی،مذہبی یا حب الوطنی بھی شامل ہے ۔ فراق گورکھ پوری کہتے ہیں۔ع
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
محبت وفا کا نام بھی ہے۔ وفا حاصل نہیں ہو پاتی محبت میں عزت توقیر وتکریم کا تقاضا زبان بندی ہے شک محبت کو کھا جاتا ہے، اعتماد محبت کا جز عظیم ہے، محبت حیات ہے اس میں کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکلے کہ دل زخمی ہو جائے،محبت ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کادرس بھی دیتی ہے،ڈاکٹر علامہ اقبال محبت کو ادب کا پہلا قرینہ قرار دیتے ہیں۔ع
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
محبت میں حدود قیود بھی نہیں ہوتیں، محبت میں نصف کامیابی کا دعوی بارہا سامنے آتا رہا ہے،پر یہ دل ناداں کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں،یکطرفہ محبت کو ہی ناکام محبت کہتے ہیں، چلو ہم محبت تو کرتے ہیں ناں یہ اعزاز تو ہم سے نہ چھینو ”محبت کرو محبت کیساتھ تجربے نہ کرو ” تجربے زندگیوں کی بھینٹ لیتےہیں پھر یہ لا حاصل ہوئے۔محبت مرد کو عورت مکین کو مکان،مالک کو کتے دوست کو دوست سے انسان کو دولت سے اس کی حدود متعین نہیں کب کس کو کس سے ہو جائے نتجہ کیا نکلے, سب کچھ دیکر بھی محبت مل جائے تو چہرہ کسی عظیم فاتح کی مانند جگمگا اٹھتا ہے۔محبت میں ہار جیت نہیں ہوتی، کئی دفعہ جیت بھی ہار ہوتی ہےاور کئی مرتبہ ھار کر بھی جیت ہوتی ہے اگرمحبت قرینے سے کی جائے تو دونوں صورتوں میں جیت اسی کی ہوتی ہے۔
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پا¶ں، ہاروں تو پیا تیری
محبت نے کسی کو بنا دیا تو کسی کو سنوار دیا کسی کو رولا دیا تو کوئی مسکرا دیا،محبت معمولی اور شدید بھی سکتی۔محبت میں بادشاہی بھی ہےاور ذلت کی ہستیوں میں بھی گرا دیتی ہے، انتخاب محبت کرنے والے کا ہے کہ وہ بادشاہی پسند کرتاہے یا ذلت؟، محبت میں کوئی شرط نہیں ہوتی،لالچ اور طمع سے پاک، نفع ونقصان اس کا معیار نہیں۔محبت بیماری نہیں عبادت ہے زندگی ہے۔ کچھ نے کہا عشق تو خلل ہے دماغ کا، کچھ نے اسے ذہنی فتور قرار دیا، ہیر رانجھا، سسی پنوں،شیریں فرہاد، مرزا صاحباں، نوری جام تماچی،رومیو جولیٹ کی رومانوی داستانیں عشق مجازی کی اولین مثالیں ہیں۔ محبت خریدی بیچی نہیں جاسکتی یہ ہو جاتی ہے یہ کوشش سے کی نہیں جاتی غالب کہتے ہیں
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
محبت بلا قیمت ہونے کے باوجود بھاری قیمت کی طلبگار ہوتی ہے اس کا وقت بھی مقرر نہیں کب کہاں اور کیسے ۔محبت صرف انسانوں تک محدود نہیں پرند چرند اور درند بھی اس سے ماورا نہیں،اولاد سے ماں باپ اور والدین سے اولاد کی محبت عین فطرت ہے۔محبت احساس ہے لطیف جذبہ ہے جس کا مرکز ایک ہو محبت اور روح کا تعلق کیا ہے؟محبت اور نفرت ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ محبت ایک خوشبو ہے،درد سوز غم شاعری اس کے صوفیانہ اثرات بھی ہیں۔ محبت میں شراکت نہیں احساس تصرف ہوتا ہے۔سیاسی رہنماﺅں سے کارکنوں کی محبت کو کیا نام دیا جائے ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں درجنوں کارکنوں نے نعرے لگاتے خوشی سے خود سوزی کر لی،پھندے چوم کر پھانسی چڑھ گئے یہ شخصیت پرستی تھی یا اوج محبت؟ حضرت یوسف علیہ السلام سے زلیخا کے عشق نے دنیاوی بندشوں کو مات دیدی۔ رب العزت نے زلیخا کی دعا قبول کر لی۔مگر آج کا شعور عشق میں ناکامی کا خدشہ بھی دل میں پالتا رہتا ہے،شاعر شعور مرحوم غلام محمد قاصر کو بھی محبت میں ناکامی کا ڈر ہے۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگئے ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
محبت میں بے وفائی کو مجبوری قرار دینے کا بھی رواج عام رہا ہے۔شاعر بشیر بدر بڑی معصومیت سے قبول بھی کرلیتے ہیں۔ع
کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا۔
تاہم استاد شاعر محسن بھوپالی اس نظریہ کو مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔ع
چاہت میں کیا دنیا داری
عشق میں کیسی مجبوری
سلیقے اور قرینے سے عشق،محبت کرنا عبادت ہے اور اس میں انسان نکھرتا ہے،برباد نہیں ہوتا آج کا شاعر سلیم کوثر بھی یہی کہتا ہے۔ع
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پہ آنچ نہیں ا¿تی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے