شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ایک بہت بلند مرتبت ، عظیم انسان تھے۔ وہ اسلام کے سچے پرستار تھے۔ مسلمانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ تھے۔ چنانچہ ان کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور مسلمان کے متعلق ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی عظمت یاد دلانا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف اصولوں اور پیرایوں میں آپ نے خطاب کیا ہے‘ ا±ن کی بانگ درا نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ ضرب کلیم نے دلوں کے جامد بتوں کو توڑ ڈالا۔ اقبالؒ دورغلامی پیداہوئے اور غلامی سے نکلنے کانسخہ بھی تجویز فرمایا۔ علامہؒ کی خواہش تھی کہ کوئی ابراہیم آج بھی امت کا ہاتھ پکڑ کر اس گرداب سے نکالے اور مسلمانوں کاڈوبتاہوابیڑہ کسی کنارے لگادے آج کی دنیا فرسودہ اور بیکارنظام ہائے زندگی سے تھک چکی ہے اور صرف مسلمانوں کے پاس ایسا نظام فکروعمل ہے جوانسانیت کی پیاس بجھاسکتاہے۔ اقبالیات کو نصاب تعلیم کاحصہ بناکر ہی ہم نئی نسل کو ذہنی غلامی سے نجات دلاکرمنزل آشناکر سکتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے، انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کیلئے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرامؓکی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنے فکر و تخیل کی دنیا میں خود کو ہمیشہ قافلہ حجاز سے وابستہ سمجھتے رہے اور رسول اکرم کی ذات گرامی ان کے قلب و روح کیلئے سامان راحت بنی رہی اور سفرِ زندگی میں ہر قدم پر اقبالؒ ذات مصطفی ہی کو اپنا ہادی و راہنما تسلیم کرتے رہے۔علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کرنے والی شاعری ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے سوئی ہوئی مسلم امہ کو جگایا اور اپنے اپنے فرائض یاد دلائے۔ علامہ اقبالؒ کی زیادہ تر شاعری فارسی میں ہے لہٰذا ایران میں علامہ اقبالؒ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی شاعری پر دنیا کے مختلف ممالک میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔ آپ کی شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں اور تعلیمی اداروں میں آپ کی شاعری پڑھائی جا رہی ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ وہ ملک کے ولی بھی تھے۔ عشق خدا اور عشق رسول ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے جس کی جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نہ صرف شاعر بلکہ عظیم فلسفی بھی تھے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں سو سال قبل ہی آج کے حالات کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ ان جیسا شاعر صدیوں بعد کسی قوم کو ملتا ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں علامہ اقبالؒ جیسا ولی اللہ کی صفات رکھنے والا شاعر ملا۔ پاکستان کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا جبکہ اس کی تعبیر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پوری کرکے دکھائی۔ علامہ اقبالؒ ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ اقبالؒ ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف اور متنوع مسائل پر برسوں مسلسل غور وفکر کے بعد اپنے کلام اور نثری مقالہ جات کے ذریعے ایسے پرازحکمت اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ جنہوں نے دنیا کے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دیا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبالؒ نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کیلئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔ علامہ اقبالؒ نے جس سوچ پر پاکستان کو قائم کیا وہ نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ دو قومی نظریہ نے آج ثابت کردیا کہ وہ وقت کی ضرورت تھا۔علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کے لیے جو خواب دیکھا اس کی تعمیر پچھلے سال سے نظر آرہی ہے،ہم جدید اسلامی فلاحی ریاست پاکستان چاہتے ہیں،پوری دنیا میں ہماری اسلامی، فلاحی ریاست کا مقام ہوگا۔لیکن کچھ لوگ اپنی لا علمی کی بنا پر تنقید کرتے ہیں۔ بچوں کو چاہیے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے علم سے حاصل کریں ۔اس وقت پاکستان کا فوکس کشمیر پر ہے۔ ہندوستان اپنی قوم کو گڑھوں میں گرا رہا ہے۔ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں شہریت کے حقوق نہیں دئیے ۔علامہ اقبالؒ نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس ا±جاگر کیا حضرت اقبالؒ مسلمانوں کے لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے انکے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبالؒؒ اور قائداعظم ؒکی قیادت میسر نہ ہوتی تو ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا نہ ہوتی۔