کالم

علم دشمن عناصر ا مکروہ ایجنڈا

یہ امر قابل توجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ دہشت گرد گروہ، خصوصاً خوارج کی باقیات، مسلمانوں کے معاشرے اور اس کی فکری و اخلاقی بنیادوں پر براہِ راست حملہ آور ہیں۔مبصرین کے مطابق کارہ باغ کے علاقے میں ایک اسکول کو بم سے تباہ کیا جانا اور اگلے ہی روز مقامی عالمِ دین اور اسکول ٹیچر مولانا ثنائاللہ کو بے دردی سے قتل کر دینا اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ دہشتگرد عناصر نہ دین کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی انسانیت کے۔ ان کا مقصد صرف خوف و ہراس پھیلانا، تعلیم کو جڑ سے اکھاڑنا اور آنے والی نسلوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنا ہے۔یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ دہشت گردوں نے علما یا اساتذہ کو نشانہ بنایا ہو، بلکہ یہ اُن کی مستقل حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تعلیم دشمنی اور عالم دشمنی دراصل اُمت کی جڑوں پر حملہ ہے، کیونکہ یہی علما اور یہی اساتذہ معاشرے کو سنبھالتے اور نسلوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن جب دشمن انہی ستونوں کو گرا دے تو پورا معاشرہ لرز جاتا ہے۔ کارہ باغ میں دھمکیاں دینے والے گروہ نے خود کو ”فدائین اسلام” کا نام دیا، لیکن حقیقت میں ان کے افعال اسلام کی روح اور اس کے بنیادی پیغام کے سراسر منافی ہیں۔علاوہ ازیں ان شرپسند عناصر نے طلبہ اور اساتذہ کو ڈرا کر گھروں میں بٹھانے کی کوشش کی تاکہ تعلیم کا چراغ بجھ جائے اور جہالت کا اندھیرا گہرا ہوتا چلا جائے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق مولانا ثنائاللہ کا قتل اس بات کا واضح پیغام ہے کہ یہ خوارج اسلام کے محافظ نہیں بلکہ اس کے دشمن ہیں ۔ وہ اسلام کے نام پر خون بہا کر اپنے شیطانی مقاصد پورے کرتے ہیں اور معصوم جانوں کو قربان کرتے ہیں۔ جبکہ اصل شہید تو وہ ہیں جو علم کی شمع کو جلائے رکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں، جو جہالت کے اندھیروں کو مٹانے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں، اور جو آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ دہشت گردی کی یہ لہر صرف انسانوں کو قتل نہیں کرتی بلکہ معاشرے کے شعور اور فکر کو بھی گھائل کر دیتی ہے۔کسے علم نہیں کہ نبی کریم ۖ نے علم کے حصول کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے مگر جب اسکولوں کو بم سے تباہ کیا جاتا ہے، جب اساتذہ اور علما کو قتل کیا جاتا ہے اور جب طلبہ کو دھمکیاں دی جاتی ہیں تو یہ سب کچھ دراصل اس حکمِ نبویۖ کی کھلی بغاوت ہے۔ خوارج دین کی ایسی شکل پیش کرتے ہیں جو نہ صرف قرآن و سنت سے متصادم ہے بلکہ اُمت کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیتی ہے اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم ختم ہو، معاشرہ خوف کا شکار رہے، اور کوئی بھی آواز حق کے لیے نہ اٹھ سکے۔مبصرین کے مطابق ان حملوں کی ایک اور سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اُمت کو اندر سے توڑنے کی ایک منظم کوشش ہے کیوں کہ جب ایک طرف علما اور اساتذہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور دوسری طرف تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جاتا ہے، تو دراصل وہ معاشرتی ستون گرا دیے جاتے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ یہ وہی حربہ ہے جو خوارج نے تاریخ کے ہر دور میں استعمال کیا ہے۔ کبھی وہ دین کے نام پر اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور کبھی طاقت کے بل بوتے پر برادریوں کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف اقتدار اور طاقت حاصل کرنا ہے، چاہے اس کیلئے معصوم جانوں کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔انسانی حقوق کے ماہرین کے بقول جنوبی وزیرستان کے یہ واقعات دراصل ایک بڑے المیے کی طرف اشارہ ہیں کہ اگر ہم نے ان عناصر کا راستہ نہ روکا تو یہ ہمارے معاشرے کے اندر سے ہمیں کھوکھلا کر دیں گے۔ علما اور اساتذہ کو قتل کر کے یہ ہمیں علم سے محروم کرنا چاہتے ہیں، اور جب علم ختم ہو جاتا ہے تو معاشرے میں فتنہ، فساد اور بربادی کا راج قائم ہو جاتا ہے اورر یہی وہ ماحول ہے جس سے بیرونی دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہماری نااتفاقی، جہالت اور خوف اُن کیلئے ایک ہتھیار بن جاتی ہے جس کے ذریعے وہ ہماری سرزمین پر اپنے مذموم عزائم پورے کرتے ہیں۔مولانا ثنائاللہ جیسے افراد کا قتل ہمیں اس حقیقت کا ادراک کراتا ہے کہ خوارج اصل میں اسلام کے پردے میں چھپے ہوئے دشمن ہیں۔ یہ نہ صرف دین کو بدنام کرتے ہیں بلکہ اس امت کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کرتے ہیں اوروہ جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن سے مسلمانوں میں بداعتمادی اور نفرت بڑھتی ہے۔ حالانکہ اسلام تو محبت، علم اور اتحاد کا دین ہے۔ یہی علما اور یہی اساتذہ ہیں جو نوجوان نسل کو اعتدال کی راہ دکھاتے ہیں، لیکن جب انہیں ہی ختم کر دیا جائے تو معاشرہ کس کے سہارے کھڑا رہے گا؟لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ اور ریاست دونوں مل کر ان خوارجی عناصر کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں۔ ہمیں نہ صرف اپنے تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانا ہوگا بلکہ اپنے علما اور اساتذہ کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ نہ کر سکے تو آنے والی نسلیں نہ صرف تعلیم سے محروم ہو جائیں گی بلکہ ایک ایسے خوف اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دی جائیں گی جہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ معاشرہ اور ریاست متحد ہو کر ان عناصر کو جڑ سے ختم کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے