حلقہ احباب سردار خان نیازی کالم

عمران خان اور جنرل باجوہ کی کامیاب حکمت عملی

طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس معاہدے سے نہ صرف خطے میں امن کے امکانات بڑھے ہیں بلکہ پاکستان بھی سرخرو ہوا ہے اور اس کی عسکری اور سیاسی قیادت بھی سرخرو ہوئی ہے۔ عمران خان نے جب شروع میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں تو انہیں طعنے دیئے گئے اور انہیں طالبان خان کہا گیا ۔ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں کہ وہ طالبان کے ہمدرد ہیں اور جانے کیا کچھ کہا گیا۔لیکن عمران خان دنیا میں جہاں بھی گئے انہوں نے یہی بات کی کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے طالبان کے ساتھ بات کیجیے ۔جہاں اور جس بین الاقوامی فورم پر انہوں نے بات کی اور جب اور جہاں کسی بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اپنا موقف رکھا ان کا یہی کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے ساتھ معاملہ کیا جانا چاہیے۔اب ساری دنیا نے دیکھا کہ عشروں کی جنگ کے بعد بالآخر مذاکرات ہوئے اور طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ وزیر اعظم پاکستان کے طور پر عمران خان سرخرو ہوئے اور ان کے موقف کی سچائی کو ڈونلڈٹرمپ اور دنیا نے تسلیم کیا۔

[wp_ad_camp_1]
یہاں افواج پاکستان کے ویژن اور صلاحیتوں کا اعتراف بھی کرنا ہو گا۔ یہاں یہ بھی ماننا ہو گا کہ تزویراتی سطح پر پالیسی کے جس تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی ، وہ تسلسل آج اپنی افادیت تسلیم کروا رہا ہے اور یہ فیصلہ درست ثابت ہوا ہے۔ جن غیر معمولی حالات سے ہم گزر رہے تھے اور جس طرح خطے میں بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی تھیںایسے میں عمران خان نے یہ سمجھا تھا کہ فوجی قیادت کا تسلسل ضروری ہے اور وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ بات درست تھی۔
افواج پاکستان اور ریاست پاکستان کی کامیابیاں نمایاں ہیں اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
طالبان قیادت نے دوحہ معاہدے کے بعد گفتگو میں سب سے پہلے جس ملک کا شکریہ ادا کیا وہ پاکستان تھا۔ باقی ممالک کا شکریہ بعد میں دوسرے فقرے میں ادا کیا گیا۔ایک اتنے بڑے اور اہم فورم پر ایک فریق کا یوں پاکستان کے بارے میں کلمہ خیر کہنا اور پاکستان کا شکریہ ادا کرنا بہت بڑی بات ہے جو پاکستان کی کامیاب سفارت کاری اور بالغ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

[wp_ad_camp_1]
بھارت نے افغانستان میں اس عرصے میں بہت اثرو رسوخ بڑھایا ۔ بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے علاقے میں درجنوں قونصل خانے کھولے اور یہاں سے پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کی۔پاکستان مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی گئی اور پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو چلانے کی کوشش کی گئی ۔یہ سب اجیت دول کی پالیسی کے مطابق ہو رہا تھا۔ کلبھوشن کا نیٹ ورک تو پکڑا گیا جانے کتنے نیٹ ورک مزید تھے جو کام کر رہے تھے۔ یہ صورت حال اتنی سنگین تھی کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اقوام متحدہ کو باقاعدہ خط لکھ کر متنبہ کیا کہ اگر ان قونصل خانوں کو روکا نہ گیا تو خطے میں امن کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بھارت نے دریائے کابل کے اوپر ڈیم بنانے کے لیے بھی افغان حکومت کو فنڈز دئیے تا کہ پاکستان کی وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کو بنجر کر دیا جائے۔ بھارت خود بھی پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اور افغانستان کے راستے سے بھی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا ارتکاب کر رہا تھا۔اب طالبان نے بڑے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ پاکستان کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے اور بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں جو جال بچھایا تھا وہ ٹوٹ کر بکھر گیا ہے اور بھارت کی برسوں کی سرمایہ کاری برباد ہو رہی ہے۔

[wp_ad_camp_1]
دوحہ امن معاہدے کے لیے جو تقریب سجائی گئی اس میں مہمانوں کی نشستوں کی ترتیب بتا رہی ہے کہ اس خطے میں اب کس کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو صف اوّل میں نمایاں جگہ پر بٹھایا گیا جو پاکستان کی اہمیت کا اعتراف ہے۔بھارت نے پاکستان کی دشمنی میں افغانستان کے اندر جو شیطانی سلسلہ شروع کر دیا تھا اب بدلتے حالات میں یہ سلسلہ جاری نہیں رہ پائے گا اور یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
دعا کرنی چاہیے کہ اب افغان قیادت بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو استحکام کی جانب لے کر جائے گی اور وہ غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی جن کا ارتکاب سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

[wp_ad_camp_1]
یہ 1991کی بات ہے جب میں نے اور اعجاز الحق نے احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کے مابین صلح کرائی،اس موقع پر مصالحتی کمیشن کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد باقاعدہ دعائے خیر بھی کی گئی،چونکہ مجھے ان معاملات کا ادراک ہے ،اس حوالے سے میں کہوں گا کہ معاہدہ ہونے کے بعد طالبان امریکہ کی افغانستان میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے کیونکہ افغانیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کسی غیر کی سرداری کو قبول نہیں کرتے ، لہذا افغانستان کوبھی چاہیے کہ وہ کسی کی پارٹی نہ بنے ، امن کے راستے پر حالات چل پڑے ہیں تو انہیں پایہ تکمیل تک لازمی پہنچنا چاہیے ، میں ایک طالبعلم کی حیثیت سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں کسی کی ذمہ داری نہیں لینی چاہیے ، آج افغانستان کے معاملے پر امریکہ ار طالبان جو آمنے سامنے بیٹھے ہیں اس سلسلے میں پاکستان کا کردار انتہائی کلیدی ہے اور اس میں ایک سہولت کی حیثیت سے دونوں کو مذاکرات کی میز پر لا بیٹھایا ہے ،پاکستان نے امن کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا وہ کیا،ان اقدامات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، 1986ء میں افغانستا ن سے روس کا انخلاء ہوا تھا اور آج تقریباً دودہائیوں کے بعد امریکہ بھی افغانستان سے واپس جا رہا ہے ، اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی حکمت عملی کو بھی تاریخ میں کلیدی لفظوں سے تحریر کیا جائیگا ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے