اداریہ کالم

عمران خان عدالتوں کاسامناکرے

idaria

ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لئے حکومت سرتوڑکوششیں کررہی ہے جس میں اسے کسی حد تک کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے اور ماہ رمضان میں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے ایک خصوصی پیکج کابھی اعلا ن کیاگیا ہے جس کے تحت کم آمدنی رکھنے والے غریب افراد کو مفت آٹے کی فراہمی کے علاوہ اشیائے خوردنی پرسبسڈی بھی دیئے جانے کافیصلہ کیاگیاہے۔اسی پیکج کے تحت غریب عوام کو پٹرول کی قیمتوں میں بھی سبسڈ ی دینے کافیصلہ کیاگیاہے کیونکہ معیشت کاپہیہ پٹرولیم مصنوعات کامحتاج ہوکررہ گیا ہے اور زندگی کے تمام معاملات کادارومدارٹرانسپورٹ پر ہے ،پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے غریب پس کررہ جاتاہے چنانچہ موٹرسائیکل رکھنے والے اوررکشہ چلانے والے افراد کو زندگی کے معاملات چلانے کے لئے وفاقی حکومت نے سبسڈی دینے کافیصلہ کیاہے ۔یہ فیصلہ خوش آئند ہے مگر یہ اقدامات عارضی ہیں اور حکومت کو مستقل نوعیت کے اقدامات کرناہو ں گے تاکہ معاشرے کے کس بھی فرد کو سبسڈی دینے کا معاملہ نہ کرناپڑے۔ یقیناً سبسڈی ہنگامی حالات میں دی جاتی ہے تاکہ وقت کے پہیے کو چلایاجاسکے ۔اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم کی زیر صدارت کم آمدن والے پٹرولیم صارفین کیلئے پٹرولیم ریلیف پیکیج پر جائزہ اجلاس ہوا، وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کم آمدن افراد تک پیٹرولیم سبسڈی کی فراہمی کی حکمت عملی پر بریفنگ دی\اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کم آمدن غریب عوام کیلئے 50روپے فی لٹر تک پٹرولیم ریلیف پیکیج میں موٹر سائیکل، رکشہ کے علاوہ 800سی سی سمیت دیگر چھوٹی گاڑیوں استعمال کرنے والے تمام کم آمدن صارفین کو شامل کیا جائے۔ پٹرولیم سبسڈی کیلئے 50روپے فی لٹر تک کی رقم مختص کی جائے، پٹرولیم سبسڈی کا عملی پروگرام جلد از جلد مکمل کیا جائے، پٹرولیم سبسڈی پر موثر عمل درآمد کیلئے تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون سے جامع حکمت عملی مرتب کریں۔ موٹر سائیکل رکشہ اور چھوٹی گاڑیاں کم آمدن عوام کی سواری ہیں اس کےلئے پٹرولیم سبسڈی براہ راست غریب عوام کے ریلیف کا باعث بنے گی، حکومت شدید معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی ہر ممکن مدد کیلئے کوشاں ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس بلایاجس میںمیں موجودہ صورتحال پر غور اور مستقبل کے لائحہ عمل پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔واضح رہے عدالت کی جانب سے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد سے اسلام آباد اور لاہور میں صورتحال کافی کشیدہ ہے۔وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کی جانب سے ملکی حالات کو خراب کرنے کے حوالے سے بھی غور کیاگیا ۔اس وقت جب حکومت ملکی معیشت کو سدھارنے کی کوششوںمیں مصروف ہے تو ملک کی ایک بڑی جماعت پورا زوراس بات پرلگارہی ہے کہ ملک میں ہنگامہ آرائی ،افراتفری اورفتنہ انگیزی کے حالات پیدا ہوں جس کی دلدل میں پھنس کرحکومت فالوآن کھیلنے پرمجبورہوسکے۔ عمران خان کی سوچ پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوںنے ساڑھے تین سال تک بائیس کروڑ عوام پرحکومت کی مگر جونہی آئینی تبدیلی کے تحت انہیں اقتدار سے ہٹایاگیا توانہوں نے تمام اداروں کوموردالزام ٹھہرانا شروع کردیاان کی نظر میں عدلیہ ،اسٹیبلشمنٹ ،الیکشن کمیشن، حکومت بلکہ ہر وہ ادارہ اورہروہ شخص چور ہے جو عمران خان کی حمایت نہیں کررہا۔عمران خان اپنے خلاف درج مقدمات میں نہ تو گرفتاری دینے پرآمادہ ہیں اورنہ ہی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کاحوصلہ کرپارہے ہیں ۔بلکہ اگر صاف الفاظ میں لکھاجائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ملکی عدالتوں کو کسی خاطر نہیں لارہے ۔عدالتیں ان کے ساتھ نرمی برت رہی ہیں اور انہیں موقع برموقع دیئے جارہی ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس نرمی اورسہولت کاغلط فائدہ اٹھارہے ہیں وہ ریلیوں میںکھلے عام شرکت کرنے کے لئے دستیاب ہیں جلسے کرنے کے لئے تیارہیں مگر عدالتوں میں پیش ہوتے وقت وہ یہ موقف اپناتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ گزشتہ پچھترسالوں میں سیاسی قیادت اپنے خلاف ہونے والے مقدمات میں عدالتوں کے سامنے پیش ہوتی چلی آئی ہے توعمران کو کیاقباحت ہے کہ وہ ان عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں۔ وہ کھلے عام ملکی قوانین کوتوڑنے میں مصروف ہیںاوراپنے کارکنوں کو اداروں کو ساتھ ٹکرانے پراکسارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ پینتیس سالوں کے دوران انہوں نے اپنے کارکنوں کو اداروں سے لڑنے کے لئے تیارکیا؟ عدالتوں سے جاری ہونے والے وارنٹ کوماننے کے لئے وہ تیارنہیں اوراسے قانون کی خلاف ورزی قراردیتے ہیں۔قانون پرعملدرآمدکامرحلہ پیش آئے تو وہ اپنے کارکنوں کواپنی ڈھال بنالیتے ہیں اورہنگامہ آرائی کرتے ہیں ،کھلے عام پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ،پولیس پرپٹرول بم پھینکے گئے ،پولیس پرغلیلوں سے حملے کئے گئے اورجب عدالت میں پیشی کامرحلہ آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ ہزاروں کارکنوں کاجلوس لیکرآتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ کس قسم کے کلچرکوفروغ دے رہے ہیں کل کلاں کسی مجرم کوعدالت کے سامنے پیش ہوناپڑے اور وہ اپنے ساتھ ساتھیوں کاایک جتھہ لیکرپیش ہوتو اسے غیرقانونی اقدام قراردیاجائے گایاقانونی۔ اس مرحلے پرعدالتوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے کہ وہ اتنی کیوں نرمی برت رہے ہیں مسئلہ تو سادہ ہے کہ عدالت نے طلب کیاتوعمران خان کواپنی وکلاءٹیم کے ساتھ حاضرہوناچاہیے مگر وہ ہزاروں کارکنان کواپنے ساتھ لیکرجب عدالتوں کے سامنے آتے ہیں تو اس سے ظاہریہ ہوتاہے کہ وہ اپنی فین فالوونگ کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالتوں اوردیگراداروں پرعوامی دباﺅکے ذریعے اپنے حق میں فیصلے کرانے کے خواہاں ہیں،ہماری نظر میں عمرا ن خان ایک غلط روایت کی بنیاد رکھ چکے ہیں کل کلاں جب وہ برسراقتدار ہوںگے تواس وقت حزب اختلاف اگراس قسم کاکوئی عمل کریگی تو پھرعمران خان کے پاس کیاجوازرہ جائے گا کہ وہ اس اقدام کو غیرقانونی یاغیرآئینی ثابت کرسکیں۔عدالتوں کااحترام معاشرے کے ہرفرد پرلازم ہے کیونکہ انصاف انہی عدالتوںسے ملناہوتا ہے اگران کی عزت تکریم میں کوئی کمی واقع ہوگی تو پھرکیسے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کاسلسلہ جاری رکھاجاسکے گادھونس اوردباﺅکے ذریعے عدالتوں سے انصاف کی فراہمی ممکن نہیں بلکہ عدلیہ کی عزت تکریم میں ہی عمران خان اوردیگرسیاسی جماعتوں کامفادہے۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پرامریکہ کی مثبت رائے
پاکستان میں ایٹمی اثاثے الحمداللہ محفوظ ہیں،پاکستان یہ بات گزشتہ تین چاردہائیوں سے کہتا چلاآرہاہے مگر ملک دشمن قوتیں اورملک کے اندر چند ایجنٹ یہ واویلابرپاکرتے ہیں کہ اثاثے غیرمحفوظ ہاتھوں میں ہیں ان اثاثوں کے محفوظ ہونے کے بارے میں امریکہ جیسی سپر طاقت نے بھی اعتراف کیاہے اس حوالے سے گزشتہ روزامریکی جنرل مائیکل ای کوریلاکا ہاو¿س آرمڈ سروسز کمیٹی میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت بجٹ، معاشی مسائل اور سیاسی کشیدگی کا سامنا ہے ۔جنرل مائیکل کوریلا کا یہ بھی کہنا تھا پاکستان کو دہشت گردی کا چیلنج بھی درپیش ہے، جنگ بندی کے خاتمے کے بعد پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملے بڑھ رہے ہیں۔سربراہ امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا تھا امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے مطمئن ہے اور ہمیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حفاظتی طریقہ کارپر اعتماد ہے ۔امریکی فوج کے سربراہ جنرل مائیکل ای کوریلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات ہیں۔دوسری جانب آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کیلئے پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں سے متعلق کوئی شرط عائد کرنے کی تردید کردی۔آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایسٹر پریز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں میں کسی قسم کی کوئی سچائی نہیں۔ آئی ایم ایف اورپاکستان کے درمیان معاہدے میں نیو کلیئر پروگرام کو جوڑنے میں کوئی سچائی نہیں، پاکستان سے مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کے معاشی مسائل اور بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ حل کیا جائے،آئی ایم ایف کا یہ مینڈیٹ ہے تاکہ معاشی استحکام کی بحالی کی جاسکے۔اس حوالے سے قوم کو اس بات کامکمل یقین رکھناچاہیے کہ ہماراایٹمی پروگرام نہ صرف پرامن ہے اورصرف اپنے ملک کے دفاع کیلئے ہے اوریہ مکمل طورپرمحفوظ ہاتھوں میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri