اداریہ

عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور چند سوالات

idaria

سابق وزیر اعظم عمران خان پر کئے جانے والے قاتلانے حملے نے ملک بھر میں بے چینی کی فضا پیدا کردی ، کارکنان مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے سڑکوں کو بلاک کرکے اپنے احتجاج ریکارڈ کرایا ، تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے اسی جماعت کے ایک سابقہ رہنما فیصل واوڈا نے پہلے اسلام آباد میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے اس مارچ خونی رنگ دیکر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی ، اس وقت ملک کی معاشی حالت قدرے بہتر حالت میں ہے اور موجودہ حکومت سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے پیدا ہونے والے اثرات کو زائل کرنے اور دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، ان حالات میں لانگ مارچ کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں مگر عمران خان حکومت سے فراغت کے بعد ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ، وہ کبھی عدلیہ کو موردالزام ٹھہراتے ہیں تو کبھی اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، گزشتہ روز تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کے 7ویں روز نامعلوم دہشتگردوں کی فائرنگ سے سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت 13پارٹی رہنما زخمی ہو گئے ‘ کپتان کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں جس کے بعد انہیں براستہ سڑک لاہور کے شوکت خانم ہسپتال منتقل کر دیا گیا ‘ عمران خان کے علاج معالجہ کیلئے ڈاکٹرز کا 4 رکنی پینل تشکیل دیاگیا ، ‘ فائرنگ کے واقعہ میں ایک کارکن معظم جان کی بازی ہار گیا۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید ،سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل ، پی ٹی آئی رہنما احمد چٹھہ سمیت دیگر شامل ہیں جبکہ فائرنگ کے بعد بھگدڑ مچ گئی جبکہ ایک جرات مند کھلاڑی نے حملہ آور کو قابو کر لیا جس کے باعث اس کے عزائم پورے نہ ہو سکے ‘ پولیس کے مطابق حملہ آور کا نشانہ چیئر مین تحریک انصاف عمران خان تھے‘وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرنے کی ہدایت کی ہے،، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بائی روڈ لاہور منتقل کیا گیا جہاں پر شوکت خانم میموریل ہسپتال میں ان کے علاج معالجہ کا پہلے ہی انتظام کر لیا گیا تھا اور ڈاکٹرز کا 4 رکنی پینل تشکیل دیا گیا تھا۔ شوکت خانم اسپتال لاہور کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فیصل سلطان نے بتایا کہ ڈاکٹرز کا بورڈ عمراں خان کا علاج کررہا ہے ، گولی عمران خان کے دائیں پاو¿ں کو چھو کر گزری، ایکسرے میں گولی کے کچھ حصے ٹانگوں میں نظر آرہے ہیں،وزیراعلی پنجاب چودھری پرویزالہی نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کرلی۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سکیورٹی اور تفتیش کے لیے پنجاب حکومت کی بھرپور مدد کرےگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد کی ہمارے ملک کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں، عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتا ہوں،عمران پر ہونے والے حملے نے اپنی پیچھے چند سوالات بھی چھوڑے ہیں جن کا جواب دینا تحریک انصاف کیلئے لازمی بنتا ہے ،پہلا سوال یہ ہے کہ حملے سے ایک روز قبل تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کا ایک ٹویٹ منظر عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے ایم این اے احمد چھٹہ کے حوالے سے کہا کہ عمران خان پر وزیر آباد میں حملہ ہوسکتا ہے ، انہیں یہ بات کس نے بتائی اور انہوں نے سیکورٹی اداروں کو اس حوالے سے کچھ بتایا ، دوسرا سوال یہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ پنجاب کے عین قلب میں ہوا تو پنجاب میں حکومت تحریک انصاف کی ہے تو حکومت پنجاب نے عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے خاطر خواہ اقدام کیوں نہیں کیا؟تیسرا سوال یہ بنتا ہے کہ وی آئی پی موومنٹ کے دوران قافلے میں شریک مرکزی گاڑی کے آگے اور پیچھے سیکورٹی کا حصار قائم کیا جاتا ہے تو اس میں غفلت کیوں برتی گئی ، چوتھا سوال یہ ہے کہ حملہ آور نے نائن ایم ایم سے گولیاں برسائیں تو ایک ہی وقت میں ایک گولی سینیٹر فیصل جاوید کے رخسار پر کیسے لگی اور دوسری گولی عمران خان کی پنڈلی میں کیسے لگی ، پانچواں سوال یہ ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ٹانگ میں گولی کے کچھ ٹکڑے موجود ہیں ،یہ بات ایک عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ ٹکڑے دھماکہ خیز مواد میں استعمال کئے جاتے ہیں نہ کہ پستول کی گولی میں کیونکہ پستول کی بلٹ پختہ ہوا کرتی ہے اور پوری کی پوری جسم میں داخل ہوتی ہے ، چھٹا سوال یہ ہے کہ جب مبینہ حملہ آور کو گرفتا ر کرکے پولیس نے اس کا بیان ریکارڈ کرلیا تو اب اس بیان کو قانونی بیان کیوں نہیں تسلیم کیا جارہا اور وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر پورا تھانہ کیوں معطل کیا ، ساتواں سوال یہ ہے کہ عمران خان کو فوری طبی امداد کیلئے کسی سرکاری ہسپتال کیوں منتقل نہیں کیا گیا بلکہ 150کلومیٹر دور لاہور کے ایک نجی ہسپتا ل لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے اس لانگ مارچ ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد جو بیانات اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے کہ حملہ تو صوبہ پنجاب میں ہوا اور استعفیٰ وزیر اعظم ، وفاقی وزیر داخلہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر سے مانگنے کا مطالبہ کیا گیا اور انہیں تینوں شخصیات پر ایف آئی آر درج کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ، پھر صوبہ کے پی کے میں تحریک انصاف کے کارکنان نے کورکمانڈر پشاور کے گھر کے سامنے جاکر ہنگامہ آرائی کیوں کی ، کیا یہ واقعہ کے پی کے میں پیش آیا تھا یا پھر اس میں کوئی ادارہ ملوث تھا ، ہم سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ کا مقصد سوائے انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہیں اور عمران خان ہوس اقتدار میں اس قدر گھر چکے ہیں کہ وہ عدلیہ ،موجودہ حکومت ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عسکری اداروں کو مسلسل طعن وتشیع کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہے اور ان کا واحد مقصد دوبارہ اقتدار میں آنا ہے ، انہیں چاہیے کہ وہ موجودہ حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دیں اور عام انتخابات میں اگر دوبارہ جیت جاتے ہیں تو ضرور برسراقتدار آئے مگر اس وقت خدارا ملک میں انتشار، تشدد ، لاقانونیت کی سیاست کو فروغ نہ دیں۔
اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز کو میٹرو بس سسٹم سے منسلک کرنے کا منصوبہ
اسلام آباد کے شہریوں کو سفر کی بہترین سہولتیں دینے کا آغاز مسلم لیگ ن کی حکومت نے شہر میں میٹرو سسٹم متعارف کراکر کیا تھا ، اب ایک بار پھر یہ حکومت میٹرو کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں کو جوڑنے کیلئے ایک نیا منصوبہ لے کر آئی ہے جسے چند ماہ کے اندر مکمل کیا جانا ہے ، اس سے پہلے موجودہ وزیر اعظم کی ہدایت پر روات تا پمز ہسپتال ،پمز ہسپتال تا بھارہ کہو اور جی نائن تا نیو ایئر پورٹ کے لئے نئی میٹرو بس سروس کا آغاز کیا گیا ، اب ایک بار پھر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز کو میٹرو بس سسٹم سے منسلک کرنے کے منصوبے کا اجرا کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق 13 روٹس اور 128 بسوں پر مشتمل فیڈر روٹس بس نیٹ ورک کا پہلا مرحلہ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں مکمل کر لیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ایف، جی اور آئی سیکٹر کے ساتھ ساتھ ڈی 12 کو مرکزی میٹرو نیٹ ورک سے بسوں کے ذریعے منسلک کیا جائے گا، ان فیڈر روٹس سے تقریبا ایک لاکھ مسافروں کو آرام دہ اور بین الاقوامی معیار کی سفری سہولیات میسر آئیں گی۔وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔مسلم لیگ ن کی حکومت کی تاریخ ہے کہ جب بھی برسر اقتدار آئے تو مفاد عامہ کے منصوبوں کو مکمل کیا ،لاہور ، راولپنڈ ی موٹروے ، پنڈی پشاور موٹروے ، سی پیک انٹر چینج ، میٹرو بس منصوبہ اور ایٹمی دھماکے مسلم لیگ کو پاکستانی تاریخ میں زندہ رکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri