کالم

عمر عبداللہ نے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا لیا

نیشنل کانفرنس (این سی) پارٹی کے چیئرمین عمر عبد اللہ نے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھالیا۔ 2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد تشکیل پانے والی پہلی حکومت ہے۔حکمران جماعت بی جے پی کے رکن اور مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے عمر عبداللہ سے عہدے کا حلف لیا۔اس سے قبل وہ 2009 سے 2014 تک اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور یہ ان کا دوسرا دور اقتدار ہوگا۔عمر عبداللہ،شیخ عبداللہ کے پوتے اور فاروق عبداللہ کے بیٹے ہیں، یہ دونوں مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔رواں سال تین مراحل میں ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی عمر عبداللہ کی پارٹی آرٹیکل 370 کی منسوخی کی سخت مخالف ہے، جس نے متنازعہ علاقے کو نیم خود مختار حیثیت دی ہے، یہ انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں بھارت کے حزب اختلاف کے اتحاد کا رکن ہے۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے عمر عبداللہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے بغیر حکومت کی تشکیل آج ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سے جمہوریت چھین لی گئی اور آج ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ جب تک ریاست کا درجہ مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتا تب تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔عمر عبداللہ نے 1998 کے لوک سبھا انتخابات میں اپنے انتخابی دور کا آغاز کیا اور اس وقت پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر رکن بنے تھے۔2009 میں وہ غلام نبی آزاد کی جگہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے اور وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر شخص بھی تھے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں جسے ووٹرز کی مودی سرکار کے خلاف ” بیلیٹ احتجاج“ قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد 90 میں سے 52 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستیں حاصل کرپائی جو حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہوجائے گی۔یاد رہے کہ مودی سرکار نے کالے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے لداغ سے جدا کیا اور پھر انھیں اکائیوں کی صورت دیکر وفاق میں ضم کرلیا تھا۔اس غیر آئینی اقدام پر مسلم رہنما عدالت گئے لیکن تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا جس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں کشمیری عوام نے حریت جماعت کی اپیل کے باعث ٹرن آو¿ٹ نہایت کم رہا ہے۔بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منہوج سنہا نے جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کی وزیراعلٰی اور ان کی کابینہ کی قراداد منظور کر لی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی نو منتخب کابینہ نے وزیراعلٰی عمر عبد اللہ کی سربراہی میں ایک قراداد منظور کی جس میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ریاستی درجے کی بحالی کا عمل کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے عمل کا آغاز ہو گا، اس میں جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی حقوق کی بحالی اور ان کی شناخت کا تحفظ شامل ہو گا۔ کابینہ نے وزیراعلٰی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی اوربھارتی حکومت کے سامنے ریاست کا درجہ بحال کرنے کے معاملے کو اٹھائیں۔اس سلسلے میں آئندہ چند روز میں وزیراعلٰی عمر عبداللہ اور ان کے کابینہ کے ارکان کی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات بھی متوقع ہے۔یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370-35 اے کو ختم کرتے ہوئے متنازع ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔بھارتی سرکار اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے گمراہ کن پروپگنڈے سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس اور تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اک بار پھر بھارت کی جانب سے انتخابات کے نام پر ریاست میں رچائے جانے والا ڈرامہ مسترد کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل انتخاب نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے تحت آزادانہ ماحول میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا انعقاد ہے۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ بھارت نے 10 لاکھ فوجی اہلکاروں کی بندوقوں کے زیر سایہ کشمیر کے تنازعہ خطے میں کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی ہے۔ حراستی ہلاکتیں ، خواتین پر دست اندازیاں، عزتوں پر حملے اور املاک کی تباہی روزانہ کا معمول بنادیا گیا ہے۔ کٹھ پتلی حکومتیں جعلی الیکشن کا ڈرامہ رچا کر قائم کی جاتی ہیں جو جمہوریت کا دعوی تو کرتی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر کٹھ پتلی حکومت کے رکاوٹ نہ ڈالنے کا یقین تو دلاتی ہیں لیکن وہ ایک لمحے کےلئے بھی کشمیری حریت پسند عوام کو اظہار رائے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ ہم بھارتی حکمرانوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور کشمیری عوام کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اور نہ ہی کشمیرکی تقسیم کی بنیاد پر کوئی حل قبول کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کا واحداور پائیدار حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری سے ہو سکتاہے۔ جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو نی چاہیے اور اس میں کشمیری جو بھی فیصلہ کریں وہ ہندوستان اور پاکستان کو قبول کرنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی تحریک ہے اور کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی طور پر حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے پاکستان کے عوام گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اسے کسی طرح بھی دہشت گردی کا نام نہیں دیاجا سکتا۔ پاکستان کے اس اصولی م¶قف کا تقاضا ہے کہ تمام انصاف پسند اقوام کشمیریوں کے حق خودارادیت کےلئے بھارت پر اپنا دبا¶ ڈالیں اور بھارتی افواج کے مظالم بند کرائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے