عجیب المیہ ہے ہماراجن کے خلاف انقلاب آنا چائیے کبھی کبھی وہ بھی انقلاب کی باتیں لگے ہیں، خاص کر اپوزیشن کے دنوں میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار بھی انقلابی ہوجاتے ہیں اور ان کو غریب کے غربت بھی یاد آنے لگتی ہے اور ان کو اب یہ احساس بھی ہوجاتا ہے کہ لوگوں کو انصاف تاخیر سے ملتا ہے اور ان کو بے گھر افراد بھی یاد آجاتے ہیں در اصل اقتدار سے دوری ان کو انقلابی بنا دیتی ہے اگر یہ فیصلہ ان کے خلاف نہ آتا شاید وہ انقلابی نہ بنتے۔اپوزیشن میں یہ عناصر تبدیلی اور انقلاب کی باتیں اور تقریریں کرتے رھتے ہیں اور بعض کو تو باقاعدہ امام الانقلاب کے لقب سے پکاراجاتا ہے اور جماعت اسلامی تو اپنے آپ کو انقلابی جماعت ہی مانتی ہے سبز انقلاب والی۔زبانی کلامی تو سب انقلابی ہیں اور یہ سب اس نظام کا حصہ ہیں اور کمال یہ ہے کہ کبھی یہ اس نظام کو بچانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی اس نظام کو مٹانے کی۔ ایک طرف پارلیمنٹ میں پہنچ کر یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ اس نظام کو تحفظ کریں گے اور پھر اس نظام کو گرانے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کچھ باشعور حلقے کہتے ہیں کہ انقلاب کی بات کر کے ہمارے یہ انقلابی رد انقلاب کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں؟۔ کمال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی جماعت کی حکومت ہے۔نظام کی خرابی فساد کی جڑ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی تاریخ یہ شہادت دیتی ہے کہ اولوالعزم ہستیوں نے ہمیشہ نظام ظلم کے خلاف جد وجہد کی ہے اور انقلاب برپا کر کے مظلوموں کو ظالمانہ نظام سے تباہ کاریوں سے نجات دلائی ہے۔ ظالمانہ نظام موجود ہو اور اس میں پیوند کاری کر کے اصلاح کی جائے یہ ناممکن بات ہے جو نظام طبقات پیدا کرے وہ قابل اصلاح نہیں ہوتا بلکہ منہدم کرنے کے قابل ہوتا ہے خیر وشر کی جنگ تو ہمیشہ سے ہے لیکن جب ہر طرف شر ہی شر ہو تو اس کا مٹانا فرض ہوجاتاہے۔بے وصول طرزمعاشرت، بے ہنگم ذندگی اور طبقات پر مبنی معاشرہ غیر اخلاقی تہذیب کو جنم دیتا ہے اور اس سے معاشرے کا ہر فرد متائثر ہوجاتا ہے اور اسکے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں اور جہاں طبقات ہوتے ہیں وہاں مایوسی اور عیاشی کے جراثیم پھیل جاتے ہیں اور ظالم اورمظلوم دو قسم کے طبقے پیدا ہوجاتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور مظلوم کا تعلق جس مذہب سے بھی ہو اس کی حمایت فطرت انسانی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام ہر ظلم کا انکار کرتا ہے اور ہر مظلوم کی حمایت ہر انسان کا فرض قرار پاتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت میں قابل اصلاح نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی مرمت کر کے اسکی اصلاح کی جائے موجودہ دور کی تباہ کاریوں کی بنیادسرمایہ دارانہ نظام اس نظام کی بقا جنگوں جنگوں کے ساتھ وابستہ ہے دنیا میں جنگ ہوگی اور ممالک آپس میں جنگ پر آمادہ ہونگے تو اس نظام کی چکی چلتی رہیگی اسلئے یہ نظام دنیا میں امن نہیں چاہتا ہے اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل امریکہ ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑی اندر سے کھوکھلی ہیں اور یہ حالت نزع کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے روس چین اور دوسرے علاقائی ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنے سے عالمی سامراج کی نیندیں حرام ہوگئی ہے اور اسی بنا پر وہ پیچ وتاب کھارہا ہے۔ موت کا عالمی سوداگر جنوبی ایشیاءمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے یہ اسے اپنے آخری انجام کی طرف لے جارہا ہے اور حالات جو پلٹا کھارہے ہیں اسکے مطابق اسلحہ کا بیوپاری اب تنہا ہوتا جارہا اور عوام کی شعوری بیداری بھی سامراج کیلئے گلے کی ہڈی ثابت ہورہا ہے یہ اب کوئی راز نہیں کہ دہشت گرد کس کے پیدا کردہ ہیں اور ان کو اسلحہ کون دے رہا ہے؟۔یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد ہمارے ہاں کی غالب اکثریت پھولے نہیں سمارہے تھے اور لڈو وغیرہ بانٹ کر اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ سرخ سیلاب رک گیا ہے اورسویت یونین ٹوٹ چکا ہے سامراجی میڈیا سویت یونین کے تحلیل کے بعد خوب شور مچا رہا تھا لیکن یہ ایک دیوانے کا خواب ثابت ہوا باشعور حلقے تو اس وقت بھی یہ کہ رہے تھے کہ یہ سویت یونین کی شکست نہیں ہے بلکہ گورباچوف اور کی حکمت عملی ہے اس کو کسی بھی طور پر سویت یونین کا اختتام نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ یہ تو اس خطے کے ممالک کی تنظیم نو ہے اور اب یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ روس جنگ سے اپنے دامن کو بچا کر ایک مستحکم ملک بن گیا ہے اور سویت ریجن کے ممالک کا اعتماد اب پہلے سب بھی بڑ کر روس پر قائم ہے اور اس حکمت عملی کے مطابق روس کے مشرقی اور مغربی ممالک کے ساتھ معاہدات اور وہاں کی منڈیوں تک رسائی امریکیوں کیلئے سوہان روح بنتا جارہاہے۔ جنگ سے دور رہ کر روس نہ اندرونی طور پر مستحکم ہوگیا ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا کے ساتھ اسکے سیاسی اور معاشی معاہدات بھی امریکہ کیلئے موت ثابت ہورہے ہیں اور اس خطے کے اہم ملک چین کا کردار اور وہاں کی معاشی ترقی اور ان ممالک کی آپس میں قربت اور شنگھائی تعاون تنظیم، بحیرہ کیسپین کے ممالک کی تنظیم، یورپ رشیاپارٹنرشپ، نیٹو رشیا پارٹنر شپ اور جی ایٹ جیسے اتحاد اور معاہدات روس کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں اور مستقبل کا جو منظر نامہ بننے والا ہے اس میں ان معاہدات کا بڑا عمل دخل ہوگا۔پاکستان کے بھادر عوام ہیں اور نہایت غیور ہیں لیکن وہ جس نظام کے زیر اثر ہیں وہ سرمایہ دارانہ ہے اور سرمایہ پرستی کے جراثیم نے ہر چیز کو آلودہ کر دیا ہے اب ضرورت ہے اس نظام سے نجات کی۔سرمایہ دارانہ نظام میں شخصیات کے آنے جانے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والا دوسرے سے بدتر ہوتا ہے۔ اس وقت جدوجھد کسی شخصیات اور افراد کے آنے جانے کے لیئے جدوجہد نہیں ہونی چائیے بلکہ ملک عزیز میں سب جد وجھد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونا چائیے کیونکہ یہ نظام انسانیت کا دشمن ہے اور یہ نظام نہ انسان کے اخلاق خراب کر کے اسے خدا پرستی سے دور کر کے سرمایہ پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ نظام انسان دوستی کا بھی دشمن نظام ہے چونکہ اس نظام کی بقاءظلم سے وابستہ ہے اور یہ نظام فساد اور طبقات پیدا کرتا ہے اسلیئے ساری جدوجہد اس نظام کے خلاف ہونی چائیے کیونکہ خرابی نظام میں ہے!!!۔