کالم

عوام کا نیا امتحان

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ فنڈ نے 7 ارب ڈالر مالیت کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے ضمن میں سٹاف سطح کا معاہدہ کر لیا ہے پروگرام کے تحت 37ماہ کی مدت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 7ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری پاکستان کے ترقیاتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے ضروری مالیاتی یقین دہانیوں کی بر وقت تصدیق سے مشروط ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ پروگرام کا مقصد عوامی مالیات کو مضبوط بنانے افراط زر کو کم کرنے بیرونی بفرز کی تعمیر نو اور معاشی بگاڑ کو دور کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھا کر گزشتہ سال سخت محنت سے حاصل کردہ معاشی استحکام کو پائیدار بنانا ہے تاکہ نجی شعبے کی قیادت میں نمو کی حوصلہ افزائی کی جا سکے پائیدار عوامی مالیات ٹیکس کی بنیاد میں وسعت اور استثنی کو ختم کرنے کےلئے اصلاحات پر مبنی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا ترقی اور سمالی اخراجات کے لئے وسائل میں اضافہ کیا جائے گا پاکستان کے حکام مالی سال 2025میں مجموعی قومی پیدوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو اڑھائی فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں آئی ایم ایف کے پروگرام کے مجموعی عرصہ میں پاکستان جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی بنیاد میں 3فیصد اضافہ کریگا پروگرام کے تحت زراعت کے شعبوں سے حاصل ہونےوالی خالص آمدنی کو ٹیکس کے نظام میں مناسب طریقے سے لایا جائے گا معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کےلئے پاکستان کی حکومت نے جاری مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سماجی تحفظ کے پروگرام تعلیم اور صحت کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اخراجات کی سرگرمیوں کو متوازن کرنے پر اتفاق کیا ہے صوبائی حکومتیں تعلیم صحت سماجی تحفظ کے لئے زیادہ خرچ کریں گی صوبے بشمول سروسز پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں کو بڑھانے کےلئے اقدامات کریں گے پاکستان کی موجودہ معاشی خرابی و بنیادی طور پر ان شاختی کمزوریوں کا مجموعہ ہے جو ہمیشہ ایک منفرد عالمی ماحول کے ساتھ موجود ہیں جو کہ زیادہ تر کمزور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں تباہی کا باعث بن رہی ہیں پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن میں اضافے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی یا برآمدات کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے پیدا ہونےوالی مشکلات کا سامنا ہے پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا ٹیکس کا نظام بہتر بناتے سرکاری اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجکاری کے بجائے انہیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے وطن عزیز کو متعدد بار اپنی ضروریات کےلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس قرض کے حصول کےلئے جانا پڑا ہے اور دوست ملکوں سے بھی بار بار رجوع کیا گیا ہے یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی جاری رکھنا ممکن نہیں قرض دینے والے جو شرائط عائد کرتے ہیں اپنی پالیسیوں اور بجٹ میں ان کی پاسداری قرض لینے والے ملک کو کرنی پڑتی ہے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے حوالے سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وطن عزیز کے مالیاتی نظام میں ڈسپلن نظر آنا شروع ہوگیا ہے اور معیشت بھی دستاویزات کی طرف آتی محسوس ہورہی ہے سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں اور ملک میں سرمایہ کاری کےلئے بہتر صورتحال پیدا کرکے معیشت کی بحالی اور مواقع روزگار میں اضافہ کی تدابیر کی جارہی ہیں پاکستانی قوم معیشت کی لاغری سمیت جن مسائل سے دوچار ہے ان کے حل کےلئے وزیراعظم دن رات متحرک اور اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ ملاقاتوں میٹنگوں دوروں میں صرف کر رہے ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آبھی رہے ہیں حالیہ غیر ملکی دوروں کے نتیجے میں مختلف ممالک کے رہنماﺅں سے مذاکرات اور سمجھوتوں کا نتیجہ کئی اچھے امکانات کی صورت میں سامنے آیا ہے سال رواں کی دوسری ششماہی میں پانچ غیر ملکی اہم سربراہان مملکت و حکومت کے دورہ پاکستان سے کئی معاملات میں پیش رفت کی امید ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 7 ارب ڈالر مالیت کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے ضمن میں سٹاف سطح کے معاہدے کی آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد روایتی دوست اور خیر خواہ ممالک کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل تیزی سے آگے بڑھنے کی توقع ہے آئی ایم ایف کا 7 ارب ڈالر کا نیا بیل آٹ پروگرام اگرچہ توقع سے بڑا ہے تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے اور زیادہ دو طرفہ کثیر الفریقی کوششیں کرنے پر زور دیا گیا ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان سٹاف لیول معاہدے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیا قرض پروگرام پاکستان میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا قرض سے نجات اور معاشی خوشحالی کا دور جلد آئے گا پاکستان کو مشکل معاشی صورت حال سے نکالنے میں آئی ایم ایف معاہدہ اہم ثابت ہوا ہے پاکستان کے معاشی تحفظ کیلئے تلخ اور مشکل فیصلے کئے مشکل فیصلوں کے ثمرات معاشی استحکام کی صورت میں سامنے آرہے ہیں پاکستان کا اس وقت سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے جس کےلئے اتحادی حکومت خلوص نیت سے کوششیں بھی کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق معاشی صورت حال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کےلئے کثیر الجہتی نکتہ نظر کی ضرورت ہے اس وقت سوال یہ ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے؟ معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر تو بہت کٹھن اور طویل ہے بہتری ہوگی تو ہم مضبوط معیشت کی جانب جائیں گے ہر وقت قرض لینا یا اس کےلئے یقین دہانیوں کا بندوبست کرنا یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کو رضامند کرنے کےلئے غریب عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دینے کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا کمزور پاکستانی تو ہر دور میں قربانی دیتا رہا ہے اب بھی دے رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس سے زبردستی قربانی لی جا رہے یہ وقت ہے کہ مالدار طبقات خصوصا حکمران اشرافیہ قوم کی حالت زار پر رحم کرے اور اب خود آگے بڑھ کر ملک و قوم کےلئے قربانی دے اگر ہم قرضوں کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے جن سے ہر حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری حتی کہ مقتدرہ بھی کتراتی ہے یہ فیصلے ہماری بنیادی سمت درست کرنے کیلئے اہم ہیں وہ سمت جو ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر لے جاتی ہے اور ہمارے عوام کےلئے نئی سے نئی مشکلات کا سبب بنتی ہے بلا شبہ قوم کے سامنے مشکل اہداف ہیں لیکن انہی مشکلات کے درمیان ایسے راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں جن میں غریب طبقے کو مزید کچلے جانے سے بچاتے ہوئے اس منزل پر پہنچا جاسکے جہاں آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے ریاست اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتی ہے اور یہ خرچہ زیادہ تر غیر پیداواری ہوتا ہے یعنی اس سے براہ راست برآمدات بڑھتی ہیں اور نہ ہی معیشت کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے ہمیں چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانے کی ضرورت ہے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف کے مطالبات پر حکومت اس وقت جو بھی فیصلے کر رہی ہے اگرچہ وہ سب ناگزیر ہیں مگر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں امیر اور غریب کے درمیان جو تقسیم مزید گہری ہوئی ہے اسے کم کرنے کے لئے حکومت کو روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے کچھ اصلاحات کرنی چاہئیں، سادگی اپنانے کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے