کالم

عوام کو کس بات کی سزا؟

پاکستان کے عوام کیلئے وہ وقت انتہائی شاندار تھا جب سال میں صرف ایک بجٹ آتا تھا اور پورے سال کی معاشی پالیسی واضح ہوجاتی تھی ریڈیو کا دور تھا اور ٹی وی چند گھروں میں ہی ہوتا تھا بزرگ نوجوان ریڈیو اور ٹی وی کے پاس بیٹھ کر وزیر خزانہ کی تقریر انتہائی غور سے سنتے تھے مگر اب تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جس طرح آئے روز اضافہ کردیا جاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر پندرہ دن بعد نیا بجٹ پیش ہورہا ہے حکومت نے گھریلو صارفین کے لئے بجلی کا نرخ بغیر ٹیکس 48.84 روپے فی یونٹ تک مقرر کردیا ہے 18 فیصد سیلز ٹیکس کے بعد فی یونسٹ ٹیرف 57روپے 63 پیسے تک بڑھ جائے گا جبکہ ایڈ جسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسز ملا کر فی یونٹ بجلی کا زیادہ سے زیادہ ٹیرف 65 روپے سے زائد ہوجائے گا وفاقی کابینہ نے مختلف کیٹیگریز کیلئے بجلی کے فکسڈ چارجز میں اضافہ کی بھی منظوری دے دی گھریلو بجلی صارفین پر مانہ200تا ہزار روپے فکسڈ چارجز عائد کئے جائیں گے کمرشل صارفین پر مقررہ چارجز میں 300فیصد اور صنعتی استعمال پر 355فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہیں اگر شرح سود نہ بڑھی اور روپے کی قدر مزید نیچے نہ گئی تو جنوری 2025 سے بجلی کی قیمتیں دو سے تین فیصد کم ہوں گی آئندے تین سے چار مہینوں کے لئے کچھ گھریلو صارفین پر قیمتوں میں دو سے لے کر نو فیصد تک کا اضافہ ہوگا حکومت ایک جانب یہ دعوی کرتی ہے کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو تحفظ دیا جائے گا اور ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جبکہ حالیہ اضافہ 100 اور 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں پر بھی لاگو ہے ماضی میں جب 200 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کےلئے ریٹس بڑھائے گئے تو اس وقت بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ جلد ہی 200سے کم یونٹس استعمال کرنے والوں پر بھی بجلی گرائی جائے گی وہ خدشات اب درست ثابت ہورہے ہیں حکومت کے اس فیصلے سے تقریبا سوا تین کروڑ صارفین براہ راست متاثر ہوں گے ان میں 80 فیصد سے زائد لوگ انتہائی غریب اور متوسط طبقے کے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں شہباز شریف کی قیادت میں حکومت معیشت کی بحالی کے نام پر جو بھی مشکل فیصلے کر رہی ہے اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے آئی ایم ایف کی شرائط کے نام پر انہیں ہر سہولت سے محروم کیا جارہا ہے وفاقی کابینہ کا نئے مالی سال کےلئے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7روپے 12پیسے فی یونٹ اضافے کا اعلان مہنگائی کے سونامی کو دو چند کرنے کا باعث بنے گا اہم بات یہ ہے کہ نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 5 روپے 72 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی تھی لیکن حکومت نے یہ اضافہ7 روپے 12پیسے کردیا یعنی حکومت عوام کی مالی مشکلات میں کمی کے بجائے مزید اضافے کی خواہاں ہے بجلی کے نرخوں میں طوفانی اضافے کا سلسلہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ رواں برس ہونےوالے معاہدے کے بعد شروع ہوا مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی کے گردشی قرضوں کے حجم کو کم کرنے کے اقدامات کی شرط ان معاشی شرائط کا حصہ ہے جن پر عمل درآمد کی یقین رہانی پر مالیاتی ادارے سے معاملات طے پائے اس میں دو رائے نہیں کہ گردشی قرضے توانائی کے شعبے کےلئے بھانک صورت اختیار کرچکے ہیں اس وقت اندازے کے مطابق ان قرضوں کا حجم اڑھائی ہزار ارب سے تجاوز کرچکا ہے مگر یہ بوجھ عوام کو دی جانے والی بجلی کی مد میں کسی رعایت کا نتیجہ نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کے ڈھانچے کے ان مسائل کی وجہ سے ہے جن سے عام صارفین کا کوئی تعلق نہیں وہ نہ ہی اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں اور نہ ہی ان مسائل کے پیدا کرنے والوں میں سے مگر جب بھی اس بوجھ کے ساتھ نمٹنے کی بات آتی ہے اس فیصلہ سازوں کی پہلی نظر عام صارفین پر پڑتی ہے اس سلسلے میں ماضی کی حکومتوں نے بھی کچھ احتیاط یا دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر پی ڈی ایم کی سابق حکومت کے بعد موجودہ حکومت س سلسلے میں جو اقدامات کر رہی ہے انہیں تباہ کن ہی قرار دیا جاسکتا ہے حکومت کی جانب سے بجلی کے ٹیرف کی درجہ بندی کی جو حدیں مقرر کی جاتی ہیں وہ بھی عملا کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کےلئے قابل ذکر سہولت کا سبب نہیں بنتی کیونکہ ایک عام کنبے کی ماہانہ بجلی کی کھپت بھی سو یونٹ سے بڑھ جاتی ہے خاص طور پر موسم گرما میں جب ہر فرد بشر کےلئے کم از کم پنکھا چلانا صروری ہوجاتا ہے ارباب اقتدار کا دعویٰ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے 580ارب روپے زائد وصول ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا اس اضافی رقم کو وصول کرنے کے بعد بجلی کے شعبے کے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے؟ گزشتہ تین سالوں سے بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ تاریخی اضافہ کردیا گیا مگر نقصانات ابھی تک پورے نہیں ہوئے بلکہ گردشی قرضوں میں الٹا اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ مسئلہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کا نہیں بلکہ اس کی چوری کا ہے اگر بجلی چوری روکی نہیں جائے گی تو اس کو مہنگا کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوگا جنتی بجلی مہنگی ہوگی اتنی ہی چوری بڑھے گی۔ توانائی کی کھپت بھی ترقی کی پیمائش کا ایک پیمانہ ہے مگر جب بغیر سوچے سمجھے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے جائیں گے تو اس کا نتیجہ توانائی کے استعمال میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کا اثر ان پیداواری سرگرمیوں پر بھی پڑتا ہے جو ملک کیلئے دولت اور عوام کے لئے روز گار پیدا کرتی ہیں ملک میں گزشتہ کچھ عرصے جو غیر معمولی تیزی سے صنعتیں بند ہورہی ہیں اور برآمدات میں گراوٹ کا سلسلہ ہے توانائی کی بے تحاشا مہنگائی اس کا بنیادی سبب ہے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ تقسیم کمپنیوں نے اپنے معاملات درست نہ کئے تو بجلی قیمتیں بڑھتی رہیں گی یعنی بجلی کے نرخ بڑھنے کی وجہ تقسیم کار کمپنیوں کی غفلت ہے حیرت ہے حکومت تقسیم کار کمپنیوں کے معاملات کو درست کرنے کے بجائے ان کے افسران و اہلکاروں کی بد انتظامی اور نااہلی کی سزا عوام کو دے رہی ہے بجلی کی چوری بل نہ دینے کی روش انتہائی مہنگے پیدواری وسائل پر انحصار اور بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی مخصوص نوعیت ایسے مسائل ہیں جن کے ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت اور دوسری مسائل اپنی جگہ مگر جب تک اس شعبے پر شفافیت غالب نہیں آتی صارفین کیلئے ریلیف خواب وخیال رہےگا حکومت صارفین کی مشکلات آگاہ ہونے کے باوجود ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے صارفین سولر انرجی کی جانب جانا چاہتے ہیں مگر اس ضمن میں بھی حکومت پالیسی گومگوں پر مبنی ہے یہ صورتحال حکومت اور عوام کے درمیان ناخوشگوار تعلق کی بنیاد بن رہی ہے بہتر یہی ہوگا کہ وزیر اعظم وزیر خزانہ اور وزیر توانائی بیانات کے ذریعے شلغموں پر سے مٹی جھاڑنے کے بجائے عوام کو ریلیف دینے کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے