میں سوچ رہا تھا کہ آج کل جگہ جگہ سی ایس ایس میں کامیابیاں دلانے کیلئے اکیڈمیز کھلی ہوئی ہیں ۔ ہر سال سینکڑوں امیدوار اس مقابلے کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں لیکن تقریباً دوسو کے قریب امیدوار کامیاب ہوتے ہیں ، ٹریننگ کے بعد جب وہ شخص افسر بن کر کسی وزارت یا فیلڈ میں تعینات ہوتا ہے تو وہ توقع رکھتا ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں ، اس کو سلام کرتے رہیں ، اس کی غیر سرکاری حیثیت کا بھی احترام کریں جبکہ وہ خود ان کی زندگی اور اس کے تقاضوں سے بے خبر اور لاتعلق رہے ۔ شاید لوگ مرتبہ اس لئے چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ اس مرتنے کے آگے سرنگوں رہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اپنی سربلندی دوسروں کو نیچا دکھانے سے ہوتی ہے ۔ معاشرے میں عزت کی تمنا خود غرضی کی انتہا ہے کیا اس طرز عمل کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اپنا فائدہ سوچنے والا انسان دوسروں کو صرف اپنے مفاد کےلئے استعمال کرنا جانتا ہے وہ بے فیض بن کر زندگی گزارنا پسند کرتا ہے ، کسی بھی شعبے کو لے لیں کامیاب شخص دوسروں کے دل میں خوف پیداکرکے اپنی تعریف اور خراج و صول کرتا ہے ۔ دیتا کچھ نہیں، اپنی ذات کے گرد سہی طواف کرتے رہنا کیا زندگی ہے ۔ فائدے تلاش کرتے رہنے والا شخص ہمیشہ بے فائدہ رہتا ہے ۔ تمنائے منصفت کا خیال اگر مانند پڑجائے تو زندگی کا لطف شروع ہونے میں دیر نہیں لگتی پھر تعلقات اور رشتوں کی اہمیت بھی اجاگر ہونے میں وقت نہیں لگتا ، تعلق کا واسطہ ہوتا ہے ، افادیت کا نہیں جیسے ایک اچھے شعر کا لطف لیا جاتا ہے اس کا فائدہ حاصل نہیں کیا جاتا ۔ نظاروں سے لطف لیاجاتا ہے فائدہ نہیں ۔ بہر حال اپنے اپنے نقطہ نظر کی بات ہے بحث کرنا مقصود نہیں ، حالیہ سیلاب نے بہت کچھ بتا اور سمجھادیا ، انسان کتنا ظالم ہے مفاد پر ست ہے، مطلب پرست بھی ہے ، بے یارو مدد گار کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے بچے خواتین بزرگ بے کسی کی داستانیں ہیں ، کچھ ایسے بھی سنگدل ہیں جو مخیر مشہور ہونے کیلئے ان سیلاب زدگان کو امداد شرائط پر دینے کیلئے ان کے پاس پہنچے ووٹ کا وعدہ لیکر امداد فراہم کرنا کا عندیہ دیا۔ انسان دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مواقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں سالوں پیچھے کی طرف دھکیل گئیں ۔ برسوں لگیں گے تو پھر کہیں جاکر بحالی ہوگی ۔ بلوچستان اور سندھ کے علاقے سیلاب کی وجہ سے سمندر دکھائی دے رہے ہیں ۔ کب پانی خشک ہوگا کب بحالی ہوگی جن جن علاقوں میں سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئی ہیں وہاں بحالی کے کام مکمل ہونے میں برسوں درکار ہوں گے ، ابھی تو وہاں مختلف امراض کے پھیلنے کا اندیشہ ہے ، ان علاقوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی بھی ایک چیلنج ہے ۔ پاکستان کے بعض علاقے اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ وہاں بحالی کاکام مکمل ہونے میں وقت لگے گا، وبائی امراض کے پھیلنے کا اندیشہ ہے اور کئی جگہوں پر ان خدشات نے اپنا ڈیرہ جمالیا ہے ۔ سیلاب سے جو خاندان متاثر ہوئے ہیں اور اس وقت کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں ان کی بحالی کاکام بھی برسوں پر محیط ہوگاجو خاندان سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں ان کی زندگی کو ایک نئے جذبے سے شروع کرانا آسان کام نہیں ۔ زمین میں ضرورت سے زیادہ پانی کی موجودگی بھی زراعت کیلئے بہتر نہیں ، کئی ایشوز سامنے آئیں گے جو حل طلب ہوں گے ، ابھی تو سیلاب سے متاثرین کی بحالی کاکام اہم ہے جن کے گھر سیلاب کی نذر ہوگئے ہوئے ان کی تعمیر اور پھر آبادکاری ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن اللہ کے کرم سے یہ مشکل کی گھڑی آخر اپنے انجام کو پہنچے گی ۔ ”ہمت مرداں مدد خدا“ انشاءاللہ سیلاب زدگان کی آبادکاری آسان ہوجائےگی ، صوبائی اور وفاقی حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں اگر مالی ذرائع بہتر ہوگئے تو سیلاب کے منفی اثرات سے نکلنا آسان ہو جائیگا، دنیا کے ممالک پاکستان میں ہونے والی قدرتی آفات سے غافل نہیں ، ان کے تعاون سے انشاءاللہ یہ مشکل کی گھڑی گزر ہی جائے گی اور پھر بحالی کاکام شروع ہوجائے گا جو لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، حکومت چاہے صوبائی ہو یا وفاقی ان کی بحالی کاکام جلد شروع کریگی۔موجودہ حالات سیاسی جماعتوں کی نمبر گیم سے بڑھ کر انسانی ہمدری اور بحالی کے متقاضی ہیں جن کے نقصانات ہوئے ہیں ان کے ساتھ مالی تعاون بہت ضروری ہے ، بین الاقوامی ادارے بھی سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی بھالی میں اہم رول ادا کریں گے ۔ بڑے بڑے ڈیمز بنانے کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے ۔ صوبائی سطح پر بے مقصد واویلا کرنے کی بجائے پہلے سے طے شدہ مقامات پر بلا تاخیر ڈیمز بنانے کاکام شروع کرنا ضروری ہوچکا ہے ، اس جانب سیاسی مصلحتوں کی بجائے حقیقی ضروریات کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے ، نعرے بازی جلسے جلسوس اپنی جگہ بہت اہم ہیں لیکن بعض ایسے بھی قومی مفادات ہوتے ہیں جن پر بحث کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی ضروری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کسی سیاسی جماعت نے برسراقتدار آکر صحیح معنوں میں ملک کی لازوال ترقی اور خوشحالی کیلئے کام نہیں کیا۔ سیاست ہمارے ملک میں ایک فائدہ مند کاروبار ہوچکا ہے۔احتساب کا عمل بھی مصلحتوں کا شکار ہے ، سیاست خدمت خلق نہیں رہی بلکہ دولت کمانے کا باوقار ذریعہ ہے ، اب تو سیاسی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں معیار نہیں مقدار اہم ہے جو ہر شناسی تو دیوانے کا خواب ہے ، سچ کہا جائے تو ہمارے ہاں ایک طویل عرصے سے جمہوریت کا شور مچایا جارہا ہے ، ٹھنڈے دل اور دماغ سے غور کریں تو جمہوریت تقریروں ،جلسے جلوسوں اور جھوٹ کو سچ بناکر بولنے کا سفر ہے ، سابقہ حکومتوں کے ہر کام میں کیڑے نکالنے کا دلچسپ ذریعہ ہے ۔ گٹھ جوڑ ، نعرے بازی ، توڑ پھوڑ اور مارشل لا ءکیلئے راہ ہموار کرنے کا سفر ہے ۔ ڈھول کی تھاپ پر مفت کھانا کھاکر لڈی ڈالنے کا موقع یہی جمہوریت فراہم کرتی ہے ۔ اگر اکثریت صداقت سے عاری ہو اچھے اور برے میں فرق محسوس کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو پھر کہاں کی عوامی حکومت اور کہاں کا عوامی راج۔ چند طاقتور مال و دولت اور طاقت کے زور پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یہی عوامی راج کہلاتا ہے ، حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالنے والے ہر طرح کے مزے اڑاتے ہیں ، عزت دار سے مزید عزت دار بن کر گردن میں سریہ لگائے پھرتے ہیں ، ووٹ دینے والے سوائے تالیاں پیٹنے کے کچھ نہیں کرسکتے ، یہی عوامی حکومت ہوتی ہے ، حالیہ سیلاب نے اور متاثرین کی حالت زار نے بہت کچھ آشکار کردیا ، دین سے دوری مشکل وقت میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کرنے سے ہاتھ کھینچنا ، ڈرادھمکاکر ووٹ حاصل کرنا کیا یہ عوامی راج ہے ۔ ملک میں امیر مختلف وجوہات کی بنیاد پر امیر تر بنتا جارہا ہے اور غریب رینگتے ہوئے زندگی گزار رہا ہے ۔ اس وقت ملک کی جو حالات ہے کس نے کی ہے ، اپنے اپنے گریبانوں میں اگر جھانک لیں تو بہت کچھ عیاں ہوجائے گا۔ اقتدار میں آنے والوں کو اگر احسان ہوئے تو ملک جو لاکھوں قربانیوں سے معرض وجود میں آیا وہ ترقی اور عوامی خوشحالی کی منزل کی گامزن ہوسکتا ہے صرف آگاہ لوگوں کی کثرت چاہیے۔