کالم

عیاشیوں کی بھینٹ۔۔۔!

سڑک کے دونوں اطراف پر بڑے بڑے درخت تھے،پیڑوں کے نیچے سرسبز گھاس تھی،درختوں اور گھاس کے باعث وہاں کا ماحول خوشگوار اور دلفریب تھا۔درختوں کے جھنڈ میں سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا چائے کا کھوکھا تھا۔دنیا کے اس خطے کے ہم لوگ چائے پینے کے شیدائی ہیں ، پھر حالات اور ماحول خوبصورت اور متاثر کن ہو تو وہاں چائے پینے کا مزا دو بالاہوتا ہے۔میں نے اپنے احباب کو یہاں چائے پینے کا مشورہ دیا، دوست چوں چراں کرنے کی بجائے میری رائے کا احترام کرتے ہوئے چائے پینے کیلئے یہاں ٹھہرنے پر آمادہ ہوئے اور سب یک زبان کہنے لگے ویلڈن یار!تیرا مشورہ زبردست ہے ۔ اتنے میں گاڑی درختوں کے نیچے کھڑی کی اورچاروں جانب درختوں اور گھاس کو دیر تک دیکھتے رہے، پودوں اورسبزے کے باعث ہمارے چہروں پر شادمانی اوردماغ پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارا ایک بیلی بھاگنے کے انداز میں کھوکھے والے کے پاس گیا اور سرائیکی میں کہنے لگا کہ” چنگی جئی چائے بنڑا‘۔اتنے تک ہم بھی کھوکھے کے پاس پہنچ گئے اور وہاںپڑی کرسیوں پر نیم دراز ہوئے، خوش گپوں میںمحو ہوئے، تھوڑی دیر میں چائے والا چائے لے آیا ، چائے پیش کی او ر ساتھ کہنے لگاکہ چائے ایسی بنائی ہے کہ آپ یاد رکھیں گے۔چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگایا اور گھونٹ بھرا تو واقعی چائے بہترین تھی۔جب میں دوسری مرتبہ چائے کی پیالی لب سے مس کرنے والا ہی تھا کہ ایک میلے کچلے کپڑے پہنے فقیر سامنے آیا ، پیسے مانگنے لگا، میںنے جھٹ پیالہ واپس میز پر رکھا اور اس کو کچھ پیسے دے دیے، اس فقیر نے نوٹ کو عاجزی اور انکساری سے لیا ،پھر اُس نے نوٹ کا بوسہ لیا اور آنکھوں سے لگایا۔ مجھے اس کی یہ ادا عجیب لگی اور میں حیرت میں مبتلا ہوگیا۔میں نے اس سے کرسی پر بیٹھنے کےلئے درخواست کی اور کھوکھے والے سے اُن کے لیے ایک کپ چائے اور بسکٹ وغیرہ کا آرڈر دیا۔اُن سے پوچھاکہ آپ نے پیسوں کو چوما اور پھر آنکھوں سے کیوں لگایا؟ اُس نے پہلے پانچ دس سکینڈ میری آنکھوں کے ساتھ آنکھیں ملائیں،پھرایک لمبی ہا بھرنے کے بعدکہنے لگا، میں والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور میں امیر زادہ تھا،میرے والد کی دس فیکٹریاں تھیں،میرے والد صاحب بہت محنتی اور جفاکش تھے، وہ ایک ایک پیسہ بچاتے تھے،میری ضرورتوں کا خاص خیال رکھتے تھے، مجھے شہر کے ایک مہنگے ترین سکول میں داخل کرایا ، مجھے ڈرائیور صبح قیمتی اور چمکتی گاڑی میں لے جاتا تھا اور چھٹی کے وقت واپس لاتا لیکن میری توجہ تعلیم پر کم اور کھیل کود پر زیادہ تھی، پرائیویٹ سکول والے ہر ٹیسٹ اور امتحان میں پاس کرتے رہے ، میں بھی خوش اور میرے والدین بھی خوش ۔ والدین اکثر دوستوں کی فیملیز کے سامنے میری قابلیت پر ناز و فخرکا اظہار کرتے رہتے تھے۔سکول کے بعد پھر والدین نے کالج میںداخل کرایا، پرائیویٹ کالج والے بھی پاس کراتے رہے ۔ میرے والدین کا شوق تھا کہ ہمارا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھے اور اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لے، انھوں نے مجھے یونیورسٹی میں داخل کرایا،کہنے کو میں یونیورسٹی جاتا تھا لیکن زیادہ تروقت دوستوں کے ساتھ بری محفلوں میں گزرتا تھا، نہ پڑھائی کی طرف توجہ دیتا تھا اور نہ ہی اپنے والد صاحب کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹاتاتھا، وقت شراب و شباب میں گزر جاتا تھا۔ایک دن میرے والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا، اُن کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔والد کو شہر کے قبرستان میںدفن کرایا،والد کی وفات کے بعد مجھے اپنے بزنس پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن جس نے ساری زندگی عیاشی کی ہو اور محنت نہ کی ہو ، اس کا دل کام میں کیسے لگتا ہے ؟میں برے دوستوں کے نرغے میں تھا اور گندی عادتیں ختم یاکم نہیں ہوئیں بلکہ اُن میں اضافہ ہوگیا۔ ہم ہر رات کو ڈانسر ز بلاتے تھے، شراب پیتے تھے، ڈانسرز پر کرنسی نچھاور کرتے تھے، ہم نوٹوں پر ناچتے تھے، ہمارے پاﺅں سے نوٹ مسل جاتے تھے،یہ سلسلہ کافی عرصہ جارہی رہا، کاروبار پر توجہ نہ دینے کے باعث کاربار متاثر ہوگیا ، دولت دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی ، آخر دولت کے ڈھیر ختم ہوگئے ، پہلے ایک فیکٹری بیچ دی ،اس سے جو رقم ملی ، اس کو بھی حسب سابقہ عیاشی کی نذر کردی، وہ رقم ختم ہوگئی تو پھر ایک اور فیکٹری کو فروخت کردیا، اسی طرح ساری فیکٹریاں ختم ہوگئیں ،پھر دوستوں سے قرض لینے لگا، قرض بڑھتا گیا مگر عادات میں تبدیلی نہ آئی، کچھ عرصہ کے بعد دوست قرض واپسی کا مطالبہ کرنے لگے،آخر میں نے اپنا گھر اور والدین کے تمام اثاثے بیچ دیے اور میری ماںان حالات سے دل برداشتہ ہوئی اور اُن کو بھی ہارٹ اٹیک ہوا،وہ بھی وفات پاگئیں۔اب اس دنیا میں کوئی نہ تھا ، رشتے دار تھے لیکن جب ہم شہر کے رئیس تھے، ہمارے پاس دولت تھی تو ہم رشتے داروں کو قریب بھی آنے نہیں دیتے تھے ۔ اس لیے میں رشتے داروں کو نہیں جانتا ہوں اور وہ مجھے نہیں جانتے ہیں۔میں چند سال قبل شہر کا رئیس زادہ تھا ، شہر کی سڑکوں پر قیمتی گاڑیوں میں پھیرتا رہتا تھا، اب اسی شہر کی سڑکوں کے کنارے راتوں کو سوتا ہوں۔اب شہر شہر ، قریہ قریہ، گلی گلی مانگتا پھیرتا ہوں، گلیوں میں آوارہ لڑکے پیچھا کرتے ہیں، آوازیں کستے ہیں، اینٹیں مارتے ہیں۔ نوافراد”معاف کریں "کہتے ہیں جبکہ دسواں دس روپے کا نوٹ تھمادیتا ہے۔جن نوٹوں کی اوپر میں ناچتا تھا، اب ایک ایک نوٹ کیلئے ترستا ہوں، رزق کو ضائع کرتا تھا،اب ایک ایک نوالے کےلئے ترستا ہوں ۔ قیمتی برانڈز کے کپڑے اور جوتے پہنتا تھا، آج پھٹے پرانے کپڑے جوتے پہنتا ہوں۔اُس نے چائے کا آخری گھونٹ پیا ، کھڑا ہوگیا اورکہنے لگا، صاحب جی!جس نے رزق، اثاثہ جات کی قدر نہیں کی، جس نے گھر کا خیال نہیں کیا ، جس نے تکبر کیا اور جس نے عیاشیاں کیں،اُن کا انجام بُرا ہوتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے،وہ چل پڑا اور میں اُس کو پیچھے سے دیکھتا رہا،جب وہ اوجھل ہوگیا تو میں سوچوں میں کھو گیاکہ اِس نے ٹھیک کہا کہ جس نے غرور اور تکبر کیا، جس نے رزق، گھر، اثاثہ جات کا خیال نہیں کیا اور سب کچھ عیاشیوں کی بھینٹ چڑھایا،اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri