ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں دوسروں کے عیب تلاش کرنا، مذہب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا اور دکھاوے کو اصل عبادت سمجھ لینا عام ہو گیا ہے۔ مساجد کے چندے ہوں، جلوسوں کی ہنگامہ آرائیاں ہوں، سیلاب جیسے انسانی المیے ہوں یا کشمیر کا مسئلہ ہو زیادہ تر توجہ ذاتی فائدے، تشہیر اور تقریری جگالی پر مرکوز ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب اپنے گریبان میں جھانکیں گے اور اپنی اصلاح کو دوسروں کی خامیوں پر فوقیت دیں گے؟ہمارا معاشرہ آج ایک ایسی بھول بھلیاں میں کھڑا ہے جہاں ہر شخص کو دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں، مگر کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر محفلِ احباب تک،ہر جگہ شکوے شکایتیں اور دوسروں کی برائیوں کا چرچا عام ہے۔ جب ہم دوسروں کو عیب کی عینک سے دیکھیں گے تو اچھائی کیسے دکھائی دے گی؟ مجھ سمیت سب اپنی اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کی خوبیاں اپنانے کی کوشش کریں یہی معاشرے کی اصل بھلائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے رویے بدل گئے ہیں پہلے غربت زیادہ تھی، مگر تعلیم کتابی ہونے کے ساتھ اخلاقی بھی تھی لوگ ایک دوسرے کو عزت دیتے، برداشت کا مادہ رکھتے اور تعلقات میں خلوص نمایاں ہوتا۔ آج پیسہ تو بہت آگیا ہے، لیکن عزت و احترام رخصت ہوتا جا رہا ہے اب انسان کی پہچان اخلاق سے نہیں بلکہ جیب کی گہرائی سے ہوتی ہے۔مذہبی طبقات کا حال بھی مختلف نہیں۔ ہر کوئی اپنے مسلک اور نظریے کو صحیح اور حق سمجھتا ہے اور دوسروں کو کمتر گردانتا ہے، جس سے امت مسلمہ میں نفاق، تقسیم اور تفریق بڑھتی ہے۔ ممبرِ رسول ۖ پر جہاں صرف اللہ کی تعریف اور دین کی اصل تعلیمات ہونی چاہئیں، وہاں سیاسی فائدے اور ذاتی مفاد کی تقریریں سنائی دیتی ہیں۔ مساجد میں چندہ اخلاص کے بجائے تشہیر کے لیے دیا جاتا ہے۔ جنازے، جو آخرت کی یاد دہانی اور عاجزی کی علامت ہیں، اب سوشل ایونٹس بن چکے ہیں۔یہ دکھاوے اور مفاد پرستی کی دوڑ صحافت تک بھی جا پہنچی ہے۔ خبر دینے والے صحافی قصیدہ گو بن چکے ہیں، اور حق بات کہنے کے بجائے تعلقات اور مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ پرموشن کے لیے دوسرے کو نیچا دکھانا اور گرانا مشن بن گیا ہے یہ پیشہ پیغمبرانہ ہے اس سے منسلک ساتھیوں کو اپنی صفوں کو ان ہی لوگوں کو جگہ دینی چاہیئے جو اس کے تقاضے پورے کرتے ہوں۔گالم گلوچ اور بدتمیزی کا صحافت سے تعلق نہیں نہیں۔ مزید افسوس یہ ہے کہ عبادات بھی دوسروں کے لیے اذیت کا سبب بن رہی ہیں۔ مساجد میں گاڑیاں بے ترتیبی سے کھڑی کر کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلوس ہو یا قومی دن، سڑکیں بلاک کر کے عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ یوں اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں ہم اس کے بندوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ دین کی اصل روح یہی ہے کہ اللہ کی رضا بندوں کے حقوق ادا کرنے اور
آسانیاں دینے میں ہے ،پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیا۔ بے گھر، بے سہارا اور بھوکے انسان امداد کے منتظر ہیں۔ چیریٹی اور فلاحی ادارے چندہ تو جمع کر رہے ہیں، لیکن یہ خدشہ ہے کہ یہ چندے متاثرین تک پوری طرح نہیں پہنچ پائیں گے۔ ایسا ہم نے 2010کے سیلاب میں بھی دیکھا تھا اور8اکتوبر 2005کے زلزلے میں بھی،جب انسانی المیے کے بیچ ذاتی مفادات غالب آئے۔کشمیر کا مسئلہ بھی اسی رویے کی ایک مثال ہے۔ ہم نے اسے تقریری جگالی، مالی منفعت اور تشہیر کے لیے خراب کیا، جبکہ یہ ایک پوری قوم کی آزادی اور تقدیر کا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے احتجاجی مظاہرے ایک سیر و تفریح اور فوٹو گرافی نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح دکھاوے کے لیے پاکستان سے محبت کے دعوے سرکاری بیانیے کے ساتھ کیے جاتے ہیں، لیکن عوام کی حقیقی بھلائی یعنی غربت کا خاتمہ، حکمرانی کی مضبوطی، سول بالادستی اور انصاف فراہم کرنا پسِ پشت رہ جاتے ہیں۔ خالی مولی نعروں اور دعووں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمیں ماننا ہوگا کہ یہ سب رویے "عیب اور برائی کی طویل داستانیں ہیں، جسے ہم سب مل کر لکھ رہے ہیں اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو یہ داستان مزید طویل ہوگی اور معاشرہ مزید اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے کے بجائے اپنی ذات کا محاسبہ کریں، اپنے روئیے بدلیں اور دین کی اصل روح یعنی اخلاق، اخلاص اور انسانیت کو اپنائیں۔ یہی راستہ ہمیں ایک بہتر معاشرہ دے سکتا ہے۔اللہ تعالی قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔(الرعد: 11)
کالم
عیب اور برائی کی داستان
- by web desk
- ستمبر 3, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 12 Views
- 8 گھنٹے ago