کالم

عید الفطر،خوشیوں بھرا دن

عید الفطر کا دن اُمتِ مسلمہ کے لئے مسرت و شادمانی کا دن ہوتا ہے وہ اس لئے کہ روحانی بہاروں کا مہینہ ختم ہونے کے بعد عید کا دن طلوع ہوتا ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس میں اُمت ِ مسلمہ کو کتاب ِ مبین کا وہ تحفہ عطا ہوا جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو اقوامِ عالم کی صفِ اﺅل میں لا کھڑا کیا۔ نہ صرف ان کی تقدیر کا مالک بلکہ عالمِ انسانیت کا معلم بنا دیا۔ مختلف مذاہب کے پیروکارسال میں کوئی ایک دن بطورِ جشن مناتے ہیں۔ ان میں ہندو۔ سکھ۔ عیسائی۔ یہودی۔ پارسی اور مجوسی شامل ہیں۔ ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ بھی دو تہواروں پر خوب جشن منایا کرتے تھے لیکن ان کا جشن منانے کا انداز اسلامی طریقہ سے بالکل مختلف او رمتضاد ہوتا تھا۔ اُن تہواروں پر طرح طرح کی قباحتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضور نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہیں دئیے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی”۔ عیدا لفطر یکم شوال کو مذہبی جوش و جذبہ کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ یہ دن بلاشبہ ایک طرف پُرمسرت ہے اور دوسری طرف یومِ تشکر بھی ہے۔ وہ اس لئے کہ اللہ نے روزے فرض کرنے کے ساتھ رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ اور اطاعتِ خدا وندی کے علاوہ عبادت و ریاضت کے مواقع بھی فراہم کئے۔ ہر سال نئی مسرتوں کے عود کرنے کی وجہ سے بھی اس کو عید کہتے ہیں۔ بعض علمائے کرام عید اس لئے بھی کہتے ہیں کہ اس میں اللہ کے نیک بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عید دراصل وہ مبارک اور مقدس دن ہے جس میں بندگان خدا نفسی مجاہدے سے سرخرو ہو کر بارگاہ رب العزت میں اپنی عبودیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عید کے دن اللہ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اس مزدور کو کیا اجرت دی جائے جو اپنا کام بخیروخوبی سر انجام دے ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے خالق ارض و سماء! اس کا صلہ یہ ہے کہ مزدور کو اسکی پوری مزدوری دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو گواہ بنا کر فرمایا ” مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم کہ جن لوگوں نے رمضان کے روزے رکھے ان کی خطاﺅں سے درگذر کروں گا۔ عیبوں کو چھپاﺅں گا اور جو دعا کریں گے اس کو شرفِ قبولیت بخشوں گا”۔ سیاہ کار انسانوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور عید کیا ہو سکتی ہے ۔ جبکہ یہ خوشخبری عید الفطر کے دن ہی سنائی جاتی ہے۔ایک ماہ کے روزے رکھ کر عید منانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب چُھٹی ہو گئی جو چاہو سو کرتے رہو۔ بعض لوگ اس موقعہ پر مادر پدر آزاد ہونے کو عید منانا سمجھتے ہیں۔ بے شک عید کی خوشیاں منانا چاہئیے لیکن شریعت کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر۔ فحاشی۔ شراب اور جواءوغیرہ قباحتیں تو پہلے ہی منع ہیں خاص کر اس مبارک دن کو عید کی خوشی مناتے ہوئے ان میں مشغول ہونا سراسر غلطی ہے۔ کیونکہ جو اعمالِ صالح رمضان کے مبارک مہینے میں اکٹھے کئے ہوں وہ یکسر ختم کر کے ان فضول کاموں کی نذر کر دینا نادانشمندانہ فعل ہوتا ہے۔ اس خوشی کے موقع پر معاشرے کے ان افراد کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہئیے جو مالی لحاظ سے کمزور ہوں تا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے قابل ہو سکیں۔ نمازِ عید پڑھنے سے پہلے بلکہ رمضان میں ہی فطرانہ ادا کر دینے سے مستحقین بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو کر اسے یومِ تشکر کے طور پر منا سکتے ہیں۔ صدقہ فطر واجب ہے۔ عید کے مبارک دن کا آغاز اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر نمازِ عید کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ عیدا لفطر کی نماز کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ عید کی دو رکعت دراصل شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی برکات سے نوازا۔ روزہ کے دوران بھوک۔ پیاس کی شدت برداشت کرنے کی قوت عطا کی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید پڑھنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ عید الفطر کے دن یہ کام کرنے مسنون ہیں۔
(1شریعت کے مطابق آرائش کرنا۔(2غسل کرنا۔(3مسواک کرنا۔(4خوشبو لگانا۔(5صاف ستھرا لباس زیب تن کرنا۔(6صبح سویرے اُٹھنا۔(7عید گاہ جانے میں جلدی کرنا۔(8عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز از قسم چھوہارے وغیرہ کھانا۔(9نمازعید گاہ میں پڑھنا۔(10ایک راستہ سے جانا دوسرے راستہ سے واپس آنا۔(11نمازِ عید کے لئے پیدل جانا۔(12نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دینا۔(13راستہ میں آہستہ آواز میں تکبیر اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ اللہ اکبر و للہ الحمد پڑھنا۔سورج ایک نیزہ بلند ہو جائے تو نمازِ عید کا وقت شروع ہو جاتا ہے جو نصف النہار تک رہتا ہے۔ لیکن عید الفطر کی نماز میں اگر کچھ تاخیر ہو جائے تو مستحب ہے۔ جبکہ عید الاضحی جتنا ممکن ہو جلد پڑھنی چاہئیے۔ جمعہ کی نماز کی طرح عید کی نماز کی بھی دو رکعت ہوتی ہیں اور خطبہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ فرض ہے جبکہ عید کی نماز میں سُنت ہے۔ جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے جبکہ عید کا خطبہ نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ البتہ خطبہ سُننا دونوں صورتوں میں واجب ہے۔ جمعہ کی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے لیکن عید کی نماز کے لئے یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں۔ عید کی نماز پڑھنے کا طریقہ یوں ہے۔ نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز عید الفطر کی سمیت چھ زائد تکبیروں کے۔ پڑھتا ہوں امام کی اقتداءمیں۔ کانوں تک دونوں ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہہ کر ثناءپڑھی جائے۔ ثناءختم کرنے کے بعد امام کے پڑھنے کے ساتھ تین بار کانوں تک ہاتھ لیجا کر اللہ اکبر پڑھ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لئے جائیں۔ امام کے ساتھ معمول کے مطابق ایک رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے تین بار کانوں تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر پڑھیں۔ جب چوتھی بار امام اللہ اکبر کہیں تو یہی کلمات پڑھ کر رکوع میں جائیں اور باقی نماز معمول کے مطابق مکمل کی جائے۔ عید کی نماز صرف باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ نماز کے بعد امام دو حصوں میں عید کا خطبہ پڑھیں گے جسے پورے آرام کے ساتھ سُنا جائے۔ خطبہ کے بعد نہ صرف اپنے لئے بلکہ عزیز و اقارب اور ملک کی خوشحالی اور سلامتی کے لئے اجتماعی دعاﺅں میں پورے انہماک کے ساتھ شریک ہونا چاہئیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے