کالم

عید الفطر کا پیغام اور اس کا تقاضا

سب سے پہلے تمام اہلیان پاکستان کو عیدالفطر کا یوم سعید مبارک ہو،اللہ رب العزت اس عظمت والے دن کی برکت پاکستان سمیت پوری ملت اسلامی کو ملی یکجہتی اور اتفاق و اتحاد عطا فرمائے۔عید الفطر خوشی کادن ہے اور یہ اتفاق و اتحاد کا استعارہ بھی ہے۔یہ مبارک دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت بڑا انعام ہے اس کی سعادتوں ،برکتوں ،رحمتوں اورفضیلتوں کے بیان سے صفحات بھرے پڑے ہیں مگراس کی حقیقی سعادتیں ،برکتیں ،رحمتیں اورمسرتیں اسی شخص کوحاصل ہوں گی جس نے رمضان المبارک کے تقاضے پورے کیے ہوں گے۔عید الفطرکادن ویسے توسبھی مسلمانوں کے لیے خوشی کاسورج لے کرطلوع ہوتاہے چاہے انہوں نے رمضان شریف کااحترام کیاہویانہ کیا ہو۔عید الفطرکے سارے فضائل اوربرکتیں اپنی جگہ لیکن اس مبارک دن کا سب سے عظیم فلسفہ یہ ہے کہ یہ امیروں اورغریبوں سبھی کے لیے خوشی کاپیغام لے کرآتاہے۔ یہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتاہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کوبھی اپنی خوشی میں شریک کیاجائے ۔اپنے پڑوسیوں ،رشتے داروں ،خاندان والوں ،غریبوں اورمفلسوں کاخاص خیال رکھاجائے تبھی صحیح معنوں میں عیدالفطرکی حقیقی خوشی حاصل ہوگی اورعید الفطر کے تقاضے پورے ہوں گے ۔ مگرافسوس آج ہم عید الفطرکے حقیقی پیغام کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ آج ہمارامعاشرہ حساس ،باغیرت اور درد مندافرادسے خالی ہوتاجارہاہے۔ایسے افراد اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں جودوسروں کابھی خاص خیال رکھتے ہوں ۔عام طورسے ہمارے معاشرے میں ہوتایہ ہے کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروالوں اوربیوی بچوں کاتوخوب خیال رکھتے ہیں ان کے لیے مہنگے سے مہنگے اوراچھے سے اچھے ملبوسات حسب وسعت خرید تے ہیں۔ اس تہوارکے موقع پربچوں کوہرخواہش پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیںمگرافسوس ان کے ارد گرد ایسے بے شمارلوگ مل جائیں گے جوعید کی لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں اورنہ عید کی خوشی حاصل کرنے کے لیے مادی ذرائع ۔ذرامعاشرے میں جھانک کردیکھے اسی عید کے دن ایک نہیں بہت سارے گھروں پرچولہاتک نہیں جلتا ہوگا،اپنے بچوں کوعیدی دینے کے لیے ان کے پاس پیسے تک نہیں ہوتے ہون گے اس لیے ان کے بچوں کے چہروں پروہ خوشیاں دیکھنے کونہیں ملتیں جودوسروں کے بچوں کے چہروں پرنظرآتی ہیں اپنے بچوں کے پھول جیسے چہرے کومرجھایاہوادیکھ کران لوگوں کے دل پرکیابیتتی ہوگی کیاکبھی اس کابھی تصورکیاہے ؟آپ اندازہ فرمائیں کہ جب خاص عید کے دن یہ بے چارے غریب بچے آپ کے بچوں کوہنسی خوشی کھیلتے کودتے،ماحول کوخوشیاں تقسیم کرتے ،اچھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھتے ہونگے توکیاان کواپنی غربت کااحسا س نہیں ہوتاہوگا؟جن بچوں کے پاس عیدی کے نام پرایک پیسہ بھی نہ ہواچھے کپڑے نہ ہوں اورخواہشات کی تکمیل کے ذرائع نہ ہو ں توظاہرہے ان کے دل کوٹھیس ضرورپہنچتی ہے۔ اس لیے ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں ،نادار بچوں کو عیدی تقسیم کریں،ان کے گھروں میں تحائف بھجوائیں اور نہیں تو کوئی میٹھی چیز ہی بھیج دیں، ان کو مبارک باد پیش کریں، تا کہ ان کو بھی سماج میں اپنے وقار اور عظمت کا احساس ہو اور وہ اچھے شہری ثابت ہوسکیں اوروہ بھی عیدالفطرکی خوشی میں شامل ہوجائیں ۔اسلام میں صدقہ فطر یا زکواة اس مقصد کی آبیاری کے لئے ہے ۔ اگر آپ اپنے معاشرے کی فلاح چاہتے ہیں اس کو ترقی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس عید الفطر کے دن سے زیادہ کوئی اچھا موقع فراہم نہیں ہوسکتا۔دل سے سارے رنج وغم مٹاڈالیے ،محبتیں تقسیم کرناشروع کردیجے، آج ہی سے اس کار خیر کی شروعات خود سے کیجئے دوسروں کے انتظار میں مت رہیے اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیجئے اور اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہر ہ کیجئے۔عیدالفطرمیں انفرادی نہیں اجتماعی خوشیاں منائیے در اصل یہی عید الفطر کا پیغام ہے اور یہی اس کا تقاضہ بھی ۔عید کے ساتھ فطر کا لاحقہ لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ اللہ کی نعمتوں سے سیرابی کا دن ہے اس کی نوازشوں سے محظوظ ہوکراس کاشکریہ اداکرنے کادن ہے۔ ہمارے نوجوان بھائی عموما ًعید کے دن ہلڑبازی اور ناچ گانوں میں مشغول ہوجاتے ہیں جو تباہی اور بے راہ روی کا سبب بنتا ہے۔عید الفطر کے دن غرباو مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی کرنا، دوستوں سے اظہار محبت کرنا، اپنے سے کمتروں اور زیر دستوں کا خیال کرنا ،بچوں سے شفقت و نرمی سے پیش آنا، بڑوں کی تعظیم کرنا ، نرمی، رواداری اور بھائی چاری کا رویہ اپنا نا یہ سب ہماری دینی اور اخلاقی ذمے داریاں ہیں جن سے عہدہ برآہوکرہم اپنا دامن نہیں جھاڑسکتے ۔ عام طور سے مسلمان عید کی خوشی منانے کے لیے اپنے گھروالوں اور بچوں کے لیے طرح طرح کے سامان خرید تے ہیں بلاشبہ بچوں اور گھر والوں کو خوش رکھنا کار ثواب ہے مگراکثریہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ خرید اری فضول خرچی کے زمرے میں آجاتی ہے اگر ہم تھوڑی سی کفایت شعاری سے کام لیں اور غریب بچوں کو بھی اپنی اس خریداری میں شامل کرلیں اوران کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے لیے کچھ نہ کچھ خریدلیں تو یقینا یہ ایک بہت بڑا کار ثواب ہوگایہ ایک عظیم دینی ،سماجی اوراخلاقی ذمے داری کوپوراکرناہوگا۔ اس کے جونتائج برآمدہوں گے وہ معاشرے میں ایک مثبت اثرچھوڑیں گے۔ اجتماعی طور پر نہ ہوسکے تو انفرادی طور پر ہی سہی اگر مسلمان اس سمت کمر ہمت کس لیں تو معاشرہ امن کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ عید، ظلم وزیادتی کرنا نہیں بلکہ اصل عید یہ ہے کہ بے سہارا اور مستحق افراد کی دستگیری کی جائے،دکھی لوگوں کے دکھ بانٹے جائیں۔سماجی خدمت کا جذبہ بیدار کیاجائے۔یہی اسلام کی منشا ہے،یہی سنت نبوی ﷺہے اور یہی رب کریم کی رضا کے حصول کا صحیح راستہ ہے۔ہمارے اسلاف نے عید کو جس انداز میں منایا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
ؑ¾ٰؑعید الفطر ، کرایوں اضافہ ، مساجد ،امام بارگاہوں کی سیکورٹی سخت
گزشتہ برسوں کی طرح رواں سال بھی عیدالفطر پرٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں من مانا اضافہ کرکے پریشان کر رکھا ہے۔تیل کی بے مہار بڑھتی ہوئی قیمتوں کی آڑ میں ٹرانسپورٹرز نے عام دنوں کے کرائے میں 200سے 800روپے تک جبکہ کئی علاقوں میں دو گنا اضافہ کردیا ہے۔ اس پہ ظلم یہ کہ پولیس تماشہ دیکھ رہی ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مارے عوام پر بے لگام کرائے کی یلغار نے عید کی خوشیاں بھی ماند کر دی ہیں۔جن مسافر اپنے آبائی علاقوں کو جانے کے لئے لالے پڑے ہیں انہیں اسی طرح دوگنا کرائے کی مصیبت واپسی پر بھی برداشت کرناپڑے گی۔آخر اس لوٹ مار کا تدارک بھی ضروری ہے۔دوسری جانب حالیہ ہفتوں میں شدت پسندوں کی طر ف سے تواتر کے ساتھ کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر، امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے ملک بھر میں مساجد اور امام بارگاہوں کی سیکورٹی بڑھا دی ہے۔ملک بھر میںتمام مساجد، امام بارگاہوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں ۔یہ حفاظتی انتظامات حالیہ دنوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے