گزشتہ ہفتے اسرائیل کی غزہ پر جاری جارحیت کے پس منظر میں مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیموںاو آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ہوا ،جوبدقسمتی سے اسرائیل کے خلاف سوائے مذمت کے کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عملے دینے میں ناکام رہا۔اس اجلاس کے بعد مسلم امہ کی عوام میں شدید مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔اسرائیل کی اس بدترین بربریت کے بعد توقع کی جا رہی تھی ،اتنے بڑے پلیٹس فارم پر مظلوم فلسطینیوں کے دفاع میں سخت اقدامات طے کئے جائیں گے جیسے یہود ہنود اسرائیل کی حکومتیں اسرائیل کی پشت پر آکھڑی ہوئی ہیں۔اگرچہ جنگ مسائل کا حل نہیں لیکن یکجہتی تو مسائل کی روک تھام کےلئے ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم پرنشستند و گفتند و برخاستندکے بعدعرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی، اسرائیلی جارحیت روکنے اور امدادی کارورائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔شکر ہے کہ اتنا تو کچھ کہہ ہی دیا ،ورنہ کئی مہربان عرب ممالک کے نزدیک اس کی ضرورت نہیں تھی۔رہ گیا پاکستان تو وہ تو خیر سے ان دنوں بارہویں کھلاڑی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے سربراہان کے مشترکہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے ، اسرائیل کا حق دفاع کا دعویٰ اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی سیاسی حل قابل قبول نہیں۔اس اہمیت نوعیت کے اجلاس میںجس اقدام کی ضرورت محسوس کی جار رہی تھی یعنی اسرائیل کیخلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق نہ ہوسکا، ایران الجزائر اور لبنان سمیت چند ممالک نے مجوزہ قرارداد میں اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روکنے، ان کیساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات توڑنے اور امریکا پر خطے کے دیگر ممالک کو ہتھیار اور بموں کی فراہمی کیلئے عرب ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔مگر 4عرب ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے یہ تجویز مسترد کردی اور 11ممالک نے اس کی حمایت کی۔اس مشترکہ اجلاس سے قبل عرب ممالک کی لیگ اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تھاجسکے بعد عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا،اس میں بھی ایسی پیشرفت نہ ہوسکی۔ حماس نے بھی عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک بدر کریں، جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلیوں کیخلاف قانونی کمیشن تشکیل دینے اور غزہ کی از سر نو بحالی کیلئے فنڈ قائم کیا جائے۔اہمیت نوعیت کا یہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سعودیہ کی میزبانی میں ہوا۔ اجلاس میں غزہ میں جرائم کا ذمہ دار اسرائیل کو قراردیا گیا ہے، مشترکہ اعلامیہ میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اور اسے جنگی جرم قرار دیتے ہوئے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے اور اسرائیل کےلئے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کہا گیا کہ سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت رکوانے کیلئے فیصلہ کن اور مشترکہ قرارداد منظور کرے، سلامتی کونسل کی طرف سے فیصلہ کن قرارداد منظور نہ ہونے سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے، معصوم شہریوں کو قتل کرنے اور غزہ کو نیست ونابود کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے، اجلاس میں پاکستان سے نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے شرکت کی ۔ نگراں وزیرِ اعظم نے غزہ میں قابض صہیونی فوج کی جانب سے مسلسل اور ظالمانہ جارحیت کی واضح اور شدید مزمت کی۔ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں اور غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے کو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مقانی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے جون 1967سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کے بطور دارلخلافہ کے ساتھ ایک خود مختار، پائیدار، محفوظ اور یکجا فلسطینی ریاست کے فوری قیام کو خطے میں دیر پا امن و سلامتی کی ضمانت قرار دیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کو شہریوں کےخلاف جرائم کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا اسرائیل کی وحشیانہ جنگ کو روکنا ضروری ہے۔یہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری کی ناکامی کا مظہر ہے۔ خطے میں استحکام لانے کےلئے واحد راستہ قبضے، محاصرے اور آبادکاری کی پالیسی کو ختم کرتے ہوئے فلسطینیوں کو انکے جائز حق کے طور پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ قابض اور جارح حکومت کی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والی اقوام پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کریں اور فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کریں۔ صہیونی ریاست کیساتھ تجارتی بائیکاٹ بالخصوص تیل اور گیس کا لین دین ختم کرنا ترجیح ہونی چاہئے، اسرائیل کیخلاف مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اپنے خطاب میں کہا سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کےساتھ کب تک ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے سلوک کریگی۔عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کےخلاف اسرائیلی بمباری کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہم جنگ میں دو چار گھنٹوں کا وقفہ نہیں چاہتے، ہم مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں اور مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں،اس کےلئے بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ اسرائیل غزہ کے بچوں اور خواتین سے انتقام لے رہا ہے، یہ مغرب کیلئے شرم کا مقام ہے جو ہمیشہ آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتا ہے۔اجلاس سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی ، شامی صدر بشار الاسد کئی دیگر شریک ممالک نے اسرائیل بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور عالمی برادری کے مایوس کن کردار پر بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک مسلم ورلڈ میں ایکا نہیں ہوتا ،تب تک اسرائیل وحشی درندے کو عالمی برادری کی پشت پناہی کی وجہ سے لگام ڈالنا ممکن نہیں ہے، بیشتر عرب ممالک اسرائیل کےساتھ سفارتی پینگیں جھول رہے ہیں ایسے میں اسرائیل کیخلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق نہ ہونا بعید از قیاس نہیں تھا ،اور نہ آئندہ ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے۔