کالم

غزہ امن مذاکرات اور حماس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے آغاز سے ہی دنیا بھر میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مختلف ممالک میں جاری چھ جنگیں رکوا چکے ہیں۔ مئی 2025 میں پاک بھارت جنگ رکوانے کا کریڈٹ بھی وہ لے رہے ہیں۔ اپنی ہر تقریر میں انڈیا کے سات جہاز گرانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن الاسکا میں صدر پوٹین کے ساتھ طویل مذاکرات کے باوجود روس یوکرین جنگ رکوا نہیں سکے اور اب انہوں نے یوکرین کو اسلحہ کی سپلائی بڑھا دی ہے۔ ٹرمپ اپنی ہر تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریفیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے امریکی جنرلز سے خطاب میں کہا فیلڈ مارشل نے بتایا کہ اگر آپ پاک بھارت جنگ نہ رکواتے تو بہت خون خرابہ ہوتا ،فیلڈ مارشل کے ریمارکس میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ ٹرمپ نے یو این کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اسی عمارت میں مسلم اور عرب رہنماؤں سے ملاقات کی اور غزہ کے بارے میں اپنے مجوزہ امن منصوبے کی منظوری لی۔وزیر اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سے وائٹ ہاؤس میں بھی ان کی ملاقات ہوئی اور پاکستانی وفد کا ریڈ کارپیٹڈ استقبال ہوا۔ ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کو غزہ میں قیام امن کے منصوبے پر اعتماد میں لیا۔پاکستان مسلم دنیا اور عرب ممالک نے غزہ کے اس امن منصوبے کی حمایت کی ۔ فلسطین میں جنگ بندی دو ریاستوں کا قیام،انتظامیہ میں ٹونی بلیر کی شمولیت ،غزہ کی تعمیر نو ۔ جنگی قیدیوں کی واپسی شامل ہے۔ لیکن جب امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو غزہ کا امن منصوبہ دکھایا تو نیتن یاہو کی مرضی کے مطابق اس میں ترامیم کی گئیں ۔ غزہ کے بارے میں امن تجاویز بناتے وقت فلسطین کی اتھارٹی اور حماس کی قیادت سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی قیادت نے غزہ کے بارے میں امریکی منصوبے کی حمایت کی ہے لیکن انہیں بحث کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظوری لینا باقی ہے ۔ جے یو آئی ایف جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین نے غزہ کے بارے میں ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کی ہے ۔غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بدستور جاری ہے۔ اب تک ساٹھ ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے اسرائیلی حملے اب بھی جاری ہیں کوئی انہیں روکنے والا نہیں امریکہ جیسی سپر پاور اسکا ساتھ دے رہی ہے صمود فلوٹیلا کے سماجی کارکنوں کو اسرائیلی فوج نے یرغمال بنایا اس اسرائیلی اقدام پر مغربی ممالک اور پاکستان کے کئی شہروں میں احتجاج ہوا ۔ اسرائیل نے ترکیہ کے کارکنوں کو رہا کر دیا ہے ۔ حماس نے اپنی قیادت فلسطینی اتھارٹی دوستوں اور ثالثوں سے مشورے کے بعد اپنی تجاویز مزاکرات کاروں کے حوالے کر دی ہیں ۔ انہوں نے غزہ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام جنگی قیدیوں کی واپسی پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے انہیں انتظامیہ میں ٹونی بلیر کی شرکت پر اعتراض ہے۔ حماس کی قیادت نے مسلم اور عرب ممالک کی غزہ منصوبے کی حمایت کو سراہا ہے جنگ کے خاتمے قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے اسرائیل جنگ بند کرے تاکہ قیدیوں کے تبادلے کو یقینی بنایا جا سکے ۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس دائمی امن کے لئے تیار ہے حماس نے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اورحماس کے غیلر مسلح ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔ ٹرمپ نے حماس سے ایک دفعہ پھر کہا ہے کہ وہ وقت ضائع نہ کرے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکیہ قطر سعودی عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کا غزہ منصوبے کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق بلوچستان میں امریکہ کو بحری اڈے نہیں دیے جا رہے امریکہ پسنی میں ایک ٹرمینل تعمیر کرے گا جس سے سرمایہ کاروں کو قیمتی دھاتوں کی کھدائی تک رسائی حاصل ہو گی ۔ جب سے ٹرمپ نے صدارت سنبھالی ہے انہوں نے نیتن یاہو سے پہلی بار سختی سے غزہ میں بمباری روکنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لئے کہا ہے کیونکہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ حماس غزہ میں پائیدار امن کے لئے تیار ہے۔ ٹرمپ کے عوام کے نام پیغامات اور پس پردہ ڈپلومیسی اسرائیل اور حماس کو قریب لانے کا باعث بنی ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم غزہ میں امن کی ڈیل کے بہت قریب ہیں اور میں چند دنوں میں اسے فائنل کرنا چاہتا ہوں تاکہ گزشتہ دو سال سے جاری قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو۔ پاکستان سمیت آٹھ ممالک نے ٹرمپ غزہ جنگ بندی منصوبے کے بارے میں حماس کے مثبت رد عمل کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا یے۔ غزہ امن منصوبے کے بارے میں اسرائیل اور حماس مزاکرات مصر کے شہر شرم الشیخ میں شروع ہو گئے ہیں ۔ حماس نے اسلحہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اب غزہ میں امن کے لئے اسٹیج تیار ہے حماس نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اسرائیل کو بھی امن کی خاطر غزہ کے شہریوں پر بمباری بند کر دینی چاہیے غزہ میں خوراک کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے تمام رکاوٹیں ختم کر دینی چاہیں۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری ظلم اور بربریت کے دو سال مکمل ہونے پر دنیا بھر کے بڑے شہروں جرمنی فرانس اٹلی اور لندن میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ ٹرمپ کا امن منصوبہ اپنی جگہ ایک مثبت اقدام ہے لیکن جب تک غزہ پر اسرائیلی بمباری بند نہیں ہوتی اس وقت تک مصر میں جاری مزاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب جب کہ حماس کی قیادت مزاکرات کے لئے تیار ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کو نکیل ڈال کر غزہ پر بمباری سے روکنا ہو گا۔ تاکہ مص میں جاری مزاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ نکل سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے