اداریہ کالم

غزہ میںعارضی جنگ بندی کی خلاف ورزی

idaria

ایک ماحو ل میں جب عارضی جنگ بندی میں قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے،چار روزہ جنگ بندی میں تیسرے تک روز تک حماس نے کئی اسرائیلی شہریوں کو رہا کیا وہیں اسرائیل نے خود بھی درجنوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ،وہیں بدقسمتی سے غزہ میں انتہا پسند یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بول دیا، اسرائیلی فورسز کے حصار میں یہودی آباد کار مسجد اقصی ٰکی بے حرمتی کرتے رہے، صیہونی فورسز نے قبلہ اول کے تمام دروازوں کا کنٹرول سنبھال لیا ، انتہا پسند یہودیوں کی اشتعال انگیزی ، مسجد اقصیٰ کے صحن میں چکر لگاتے رہے، دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی فورسز کی مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کے اندر وحشیانہ کارروائیاں جاری رہیں، مزید 9فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، صیہونی فوجیوں نے جنین اور دیگر علاقوں پر دھاوا بول دیا جہاں ہفتے اور اتوار کی شب سے جاری پرتشدد کارروائیوں میں 8فلسطینی شہید کردیئے گئے ، فلسطینی ہلال احمر کے مطابق غزہ کے مغازی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے ایک فلسطینی کسان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا، مقبوضہ مغربی کنارے میں صیہونی فوجیوں نے رہائی پانے والے فلسطینیوں کے استقبال کیلئے جمع فلسطینی شہریوں پر بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے، صیہونی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے دو اسپتالوں پر بھی دھاوا بول دیا اور دونوں اسپتالوں کا محاصرہ کرلیا ہے ہزاروں فلسطینی اشیا ضروریہ جمع کرنے کیلئے غزہ کی سڑکوں پر قطاریں لگائے ہوئے ہیں ، پوپ فرانسس نے درست کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور مذاکرات ہی امن کا راستہ ہیں۔ جنگی قیدی کو کی رہائی میں یہ دہشت گردی سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے 13قیدیوں کی واپسی کی تصدیق کردی ہے ،ان قیدیوں کے علاوہ 3 تھائی اور ایک روسی قیدی بھی رہائی پانے والوں میں شامل ہیں ، امریکی صدر جوبائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ45سالہ امریکی خاتون اور 4سالہ امریکی بچی قیدسے رہا ہونے کے بعد اسرائیل پہنچ گئی ہیں، قطر کا کہنا ہے کہ 39فلسطینی قیدی بھی جلد ہی رہا کردیئے جائیں گے ، گذشتہ روز13 یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے 39 فلسطینیوں کو اپنی قید سے رہائی دی تھی۔ جمعہ کے روز کو حماس نے جو 24 یرغمالی رہا کیے ان میں سے اسرائیل کے 13، تھائی لینڈ کے10 اور فلپائن کے ایک شہری شامل تھے۔ حماس نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کل 54 یرغمالیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے 117 فلسطینیوں کو اپنی جیلوں سے رہائی دی ہے۔ مستقل جنگ بندی کی کوششیں جاری تھیں کہ اسرائیلی انتہاپسندوں نے امن کیوششوں پر وار کر دیا ، قطر اور مصر کا کہنا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہیں، حماس کے سیاسی بیورو کے رکن غازی حماد نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کردے تو ہم بھی پکڑے گئے تمام اسرائیلیوں کو رہا کرنے کے لئے تیار ہیں، حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی میں مزید 2سے 4روز کی توسیع کیلئے تیار ہیں،اس دوران مزید 20سے 40اسرائیلی قیدیوںکو رہا کیا جاسکتا ہے ، مصری وزیرخارجہ صامع شوکری اور امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے غزہ میں مستقل اور پائیدار جنگ بندی کیلئے ٹیلی فونک گفتگو کی ہے ۔ادھر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو فوٹو شوٹ کیلئے غزہ پہنچے ، عرب میڈیا کے مطابق فوجی لباس میں ملبوس نتن یاہو نے ہیلمٹ بھی پہن رکھا تھا اور وہ اسرائیلی فوجیوں کے حصار میں موجود تھے ، یہ 2005کے بعد پہلی بار ہے کہ کوئی اسرائیلی وزیراعظم غزہ کے اندر داخل ہوئے ہیں۔یہ عمل بذات خود بدنیتی کا مظہر ہے۔ دوسری طرف انتہا پسند یہودی آبادکاروں اور اسرائیلی افواج کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ اتوار سے جاری ہے ۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ مغربی کنارے میں سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے اعداد وشمار کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کی فائرنگ سے ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس نئی صورتحال میں عارضی جنگ بندی کا دار و مدار اس بات پر منحصر ہے کہیہ خلاف ورزیاں کب تک جاری رہتی ہیں۔ ماہرین کو توقع ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کےساتھ ہی غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی جو مزید ایک ہفتے سے 10 دن تک جاری رہے گی۔لیکن اس صورت میں کیا ممکنات ہیں جب ایک طرف وزیر اعظم نتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی توجہ جنوبی غزہ کی پٹی کی طرف موڑ لے گی۔دنیا اچھی طرح آگاہ ہے کہ اسرائیل نے حماس کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم ظاہر کر رکھا ہے ،اگر اسرائیل جنوب کے ساتھ وہی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جو اس نے پہلے ہی غزہ کے شمال میں کیا ہے، تو کیا مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، سے اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔اس سوال کا جواب امریکہ کے پاس ہے ،جو اس بربریت کے پیچھے کھڑا نظر آتا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کاآپریشن، 8دہشتگردہلاک
بلاشبہ پاک فوج اور قوم کی لازوال قربانیوں کے باعث دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے کی کوشش کی گئی جس میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔ گزشتہ روزسکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا جس میں 8 دہشتگرد ہلاک ہوگئے۔ آپریشن دہشتگردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاعات پر کیا گیا، آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا دہشتگرد سکیورٹی فورسز اور شہریوں کیخلاف متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے، ہلاک دہشتگردوں سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔ علاقے میں دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے کلیئرنس آپریشن جاری ہے، ادھرسیکورٹی فورسز کا قا فلہ شما لی وزیرستان سے بنوں آ رہا تھا کہ آ زاد منڈی کے قریب حملہ آ وروں نے نشا نہ بنا دیا، جس کے نتیجے میں ایک راہگیر اور3 اہلکاروں سمیت11زخمی ہوگئے۔شہید اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا۔حملہ میں فرنٹیئر کور کی گاڑی مکمل تباہ ہوگئی۔واقعہ کے بعدسیکورٹی فورسز اور پولیس نے علاقہ گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔فورسز ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہیں۔
سموگ کے خاتمے کیلئے جامع پالیسی کی ضرورت
اسموگ کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات کے باوجود لاہور تاحال دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاﺅن کے باوجود لاہور شہر کا مجموعی ایئرکوالٹی انڈیکس 356 ریکارڈ کیا گیا۔ مال روڈ پر ٹریفک بند ہونے کے باوجود ایئر کوالٹی انڈیکس 458 ریکارڈ کیا جا رہا ہے، ڈی ایچ اے فیز 8 کے علاقے میں فضائی آلودگی 437، گلبرگ میں اے کیو آئی 412 ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ جوہر ٹاﺅن میں ایئر کوالٹی انڈیکس 402 پر جا پہنچا ہے۔ شہر کی زہریلی فضا میں سانس لینا بھی محال ہوگیا ہے۔ اسموگ کے باعث روزانہ ہزاروں مریض رپورٹ ہونے لگے ہیں۔ بڑھتی فضائی آلودگی کے باعث ہزاروں کی تعداد میں مریض رپورٹ ہو رہے ہیں، اسموگ کے دوران بچے اور بزرگ شہری خصوصی احتیاط برتیں، گھروں سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال یقینی بنائیں۔ سموگ ایک عفریت بن رہی ہے۔ اس کے مضر اثرات بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ سموگ کے تدارک کےلئے ایک جس جامع پالیسی کی ضرورت تھی وہ تشکیل نہیں پا سکی ۔ حکومت کی طرف سے کچھ کاروباربند کر دیے گئے۔ سکول بند کر دیے گئے۔ کاروبار کے اوقات بدل دیے گئے اس کے باوجود سموگ کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا جس کے باعث گلا خراب، آنکھوں میں جلن اور بھی صحت پر مزید مضر اثرات پیدا ہورہے ہیں۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سموگ کے خاتمے کے حوالے سے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے بھی آلودگی آتی ہے اوربھارت کے کئی شہروں میں بھی سموگ چھائی ہوئی ہے اور ہواﺅں کے ذریعے یہ مزید پھیل رہی ہے۔بہرحال مقامی سطح پر جو پالیسی بنائی جائے مکمل تحقیق کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے بنائی جائے۔ پالیسی بن جائے تو اس پر سختی سے عمل بھی کرایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے