کالم

غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی

riaz chu

صیہونی ریاست اسرائیل کی معصوم فلسطینیوں کے خلاف بربریت 7 اکتوبر کے بعد شروع نہیں ہوئی بلکہ فلسطینیوں کو تب بھی شہید کیا جاتا تھا جب حماس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں بھی شہید کیا جارہا ہے جہاں حماس موجود ہی نہیں۔ فلسطینیوں کو تو اپنے دفاع میں بولنے تک کی اجازت نہیں ہے اور ان کے مخالف غزہ میں جاری اس نسل کشی کے خلاف ہونے والے پر امن مارچ کی اجازت دینے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
غزہ میں ترک فرینڈ شپ ہسپتال کے قریب اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 100فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسرائیلی طیاروں نے رفاح کے مغربی حصوں میں شدید حملہ کیا۔ زیتون محلے میں گھر پر بمباری سے 7جب کہ الزوائدہ میں ایک گھر پر بمباری میں بچوں سمیت 13افراد شہید ہوگئے۔ دونوں حملوں میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
برطانوی وزیرداخلہ سویلا بریورمین نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کو’نفرت مارچ’ کا نام دےتے ہوئے الزام لگایا کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کرنے والوں کا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔وزیرِداخلہ کے متنازع بیان پر اراکین پارلیمنٹ اور مختلف تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔سربراہ اسکاٹش لیبر پارٹی انس سرور نے کہا کہ سویلا بریورمین کا بیان نفرت کے سلسلے کی کڑی ہے جو کمیونیٹیز کے مابین تناو¿ کو ہوا دینے کا باعث ہوگا۔برطانوی ٹوری بیرونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ سیویلا بریورمین کمیونٹیز میں تقسیم کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
حالیہ جنگ مقبوضہ فلسطینیوں کے خلاف غاصب اسرائیل کی جارحیت ہے۔ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی طرح بہت سے یہودی بھی فلسطین کی آزادی، خودمختار ریاست اور حق خودارادیت کے حق میں ہیں۔ بہت سے متعدل یہودی فلسطین میں اسرائیلی بربریت کے خلاف ہیں۔ معروف امریکی یہودی راہب (Yisroel Dovid Weiss) فلسطینیوں کے حامی اور نیتن یاہو جیسے شدت پسندوں کے مخالف ہیں، وہ خدا کے حکم کی پیروی میں یہودی ریاست کے قیام کی بھی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ یہودی راہب کا کہنا ہے کہ دو ہزار سال کی ہجرت کے دوران جب ہر جگہ انہیں یہودی ہونے کی وجہ سے مظالم کا سامنا تھا، تب مسلمان ہی تھے، جنہوں نے یہودیوں کو اپنی زمینوں پر پناہ دی اور ان کی حفاظت کی۔ یہودی راہب کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں مسلمان ملکوں میں ہی یہودیوں نے فروغ پایا، اب صیہونیوں کی جانب سے انہیں مسلمانوں پر یہودیوں سے نفرت کا الزام لگانا قابل قبول نہیں۔
یہودی راہب اس بات پر شرمندہ ہیں کہ صیہونی ان کے مذہب کے نام پر ظلم کر رہے ہیں، لوگوں کو خاموش کر رہے ہیں اور قبضے کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 13 برس قبل جب غزہ جانے والے امدادی قافلے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کیا گیا تھا تو انہی یہودی راہب نے صیہونی ریاست سے متعلق لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یہودیت نہیں صیہونیت ہے اور اسرائیل کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں، یہ فلسطینیوں کی زمین ہے۔ترکیہ کے صدررجب طیب اردوان نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ناکہ بندی اور بمباری کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”قتل عام“ قرار دیا ہے۔ جنگ کی بھی ”اخلاقیات“ ہوتی ہے لیکن اس کی شدید خلاف ورزی کی گئی ہے۔انہوں نے اسرائیل کی جانب سے بجلی اور پانی کی بندش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے روکنا اور ان گھروں پر بمباری کرنا جہاں شہری رہتے ہیں ، ہر طرح کا شرمناک طریقہ استعمال کرتے ہوئے تنازع چلانا جنگ نہیں، ایک قتل عام ہے۔اردوان نے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو کسی بھی اخلاقی بنیاد سے عاری قرار دیتے ہوئے تنقید کی، اور دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ”آنکھ بند کر“ ایک طرف کی حمایت نہ کریں،انہوں نے متنبہ کیا کہ بنیادی مسئلہ حل نہ کیے جانے سے نئے اور زیادہ پرتشدد تنازعات جنم لیں گے۔ ’ہم امریکا، یورپ اور دیگر خطوں کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فریقین کے درمیان ایک ایسی پوزیشن اختیار کریں جو منصفانہ، منصفانہ اور انسانی ہمدردی کے توازن پرمبنی ہو۔ ایسے کاموں سے گریز کرنا چاہیے جس سے فلسطینی عوام کوسزا ملے، جیسے کہ انسانی امداد کو روکنا‘۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور آپس میں اتحاد رکھو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی طرف سے اتحاد کی دعوت دی اور آپ نے تمام نسلوں، سیاہ و سفید کو اتحاد کی طرف بلایا اور بلند آواز سے اعلان فرمایا: "عربوں میں کوئی فرق نہیں، نہ کوئی عجمی، اور نہ کوئی گورا ہے اور نہ ہی کوئی کالا ہے، صرف تقویٰ ہے۔” "خدا، اسلام اور قرآن کی نظر میں اور قبولیت کے لحاظ سے، میری نظر میں نسلی گروہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمیں پیغمبر اکرم اور قرآن کی سیرت کی پیروی کرنی چاہئے، اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد قائم ہوگا۔ اب مسلمانوں کے درمیان یہ ناکامیاں اختلافات کی وجہ سے ہیں۔ ہمیں صیہونیت کو اپنا پہلا دشمن سمجھنا چاہیے کیونکہ قرآن کے مطابق ہمیں صہیونیت سے دور رہنا چاہیے کیونکہ یہودی سب سے خطرناک مذہب ہے اور ہمیں اس کے قریب نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیے تاکہ وہ اس بات کی جرا¿ت نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے