اداریہ کالم

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری،ہسپتال قبرستان بن گئے

idaria

غزہ میں جاری جنگ کے اثرات بہت گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔اسرائیل کی وحشانہ بمباری سے صرف گلیاں اور بازار لہو رنگ نہیں ہو رہے بلکہ ہسپتال بھی اس وحشت کا شکار ہیں۔غزہ کی گنجان آباد گلیوں میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے پورے پورے خاندان صفحہِ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں اب تک 11ہزار سے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے ہسپتالوں پر بمباری اور حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے، ہسپتال قبرستانوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے آئی سی یو کے تمام مریض دم توڑ چکے ہیں، ہسپتال کے انکیوبیٹرز میں موجود تمام قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو نکال لیا گیا جن میں سے مزید 5 بچوں نے دم توڑ دیا۔اسی طرح غزہ کے الرنتیسی ہسپتال سے اسرائیلی فوجیوں نے عملے کو باہر نکال دیا جبکہ انتہائی نگہداشت میں موجود مریضوں اور زخمیوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا، مریضوں کو منتقل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، غزہ کے ایک اور بڑے ہسپتال القدس نے بھی تمام آپریشنز بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔اقوام متحدہ کے کیمپ اور جبالیہ کیمپ پر بمباری میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔اس وحشت ناک صورتحال کی وجہ سے یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیںہسپتالوں پر حملوں کے بعد حماس نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے جاری مذاکرات معطل کردیئے ہیں۔ صیہونی طیاروں نے اتوار کے روز بھی غزہ کے اسپتالوں پر بم برسائے جبکہ اسرائیلی فوج کے اسنا ئپرز اور ٹینکس نے بھی اسپتالوں کو گھیرے میں لے لیا ہے جہاں ہزاروں مریض اور بے گھر افراد محصور ہوکر رہ گئے ہیں ، اسپتالوں میں ایندھن ختم ہونے کے بعد بجلی بند ہوچکی ہے ، وینٹی لیٹر اور انکیوبیٹرز میں رکھے مریض دم توڑ رہے ہیں ،پانی اور غذا ختم ہونے کے بعد لوگوں کو بھوک اور پیاس کیساتھ ساتھ خوفناک بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے ہسپتالوں پر حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔ صیہونی افواج کی کارروائیوں کے دوران غزہ شہر کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال میں دل کے مریضوں کا وارڈ مکمل تباہ ہوگیا جبکہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ کو دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے ۔ فلسطینی وزیر صحت مائی الکائلہ کا کہنا ہے کہ مریضوں کو ہسپتالوں سے زبردستی سڑکوں پر منتقل کیا جارہا ہے، اسرائیلی فورسزہسپتالوں سے لوگوں کو صرف نکال نہیں رہی بلکہ وہ زخمیوں کو زبردستی سڑکوں پر لا رہے ہیں تاکہ انہیں ناگزیر موت کا سامنا کرنا پڑے، ڈاکٹرز ودآتٹ بارڈرز نے خبردار کیا ہے کہ جنگ بندی یا انخلا کے بغیر ہسپتال مردہ خانہ بن جائے گا۔پناہ گاہوں کے طور پر کام کرنے والی دیگر عمارتیں بھی متاثر ہوئی ہیں ۔ دوسری جانب غزہ کے شمالی علاقوں سے مزید ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کردیا گیا ہے ، ہزاروں افراد ٹرکوں ، کاروں اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے جنوب کی طرف نقل مکانی میں مصروف رہے ۔ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حزب اللہ ، القسام اور القدس بریگیڈ کے اسرائیل پر راکٹ حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے عرب رہنماو¿ں کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنے مستقبل کیلئے فکر مند ہیں تو وہ حماس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس جنگ کا دائرہ بھی پھیلنے لگا ہے۔اسرائیلی فوج کے طیاروں نے شام اور لبنان میں فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں ، صیہونی فوج کے مطابق انہوں نے شام میں گولان کی پہاڑیوں کی جانب حملے کئے ہیں جبکہ لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے ، حماس اور حزب اللہ نے اسرائیل کے شمالی علاقوں سمیت مختلف علاقوں پر درجنوں راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اس سب کچھ کے بعد یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا موقع دے دیا گیا،عالمی برادری جانتے بوجھتے چشم پوشی کررہی ہے،اس بدترین صورتحال میں لڑائی جتنی طویل ہوگی خطہ جنگ کی دلدل میں دھنستا جائے گا۔ مشترکہ عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس میں نسل کشی روکنے کیلئے موثر فیصلوں کا فقدان رہا ۔
افغان مہاجرین کی واپسی،نئے کراسنگ پوائنٹس ضروری
غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے اب تک دو لاکھ سے زائد افراد واپس جا چکے ہیں۔یہ معاملہ اگرچہ سست روی کا شکار ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کےساتھ سرحد پر 3 نئے کراسنگ پوائنٹس کھولے جائیں گے کیونکہ حکومت غیرقانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کی وطن واپسی کا عمل تیز کرنے کے خواہاںہے۔ پاکستان نے افغان حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ نئے کراسنگ پوائنٹس پیر سے کھول دیے جائیں گے ،نئے کراسنگ پوائنٹس کے حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے قلعہ سیف اللہ کے علاقے بادینی شنبند میں ایک بارڈر کراسنگ پوائنٹ اور ضلع چاغی کے علاقوں بربچہ اور نور وہاب میں دوکراسنگ پوائنٹس کھولنے کی تجویز دی ہے۔ اس وقت ایف آئی اے اور دیگر محکموں کو بلوچستان اور دیگر صوبوں کے مختلف علاقوں سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی پروسیسنگ اور رجسٹریشن میں مشکلات کا سامنا ہے، چمن میں موجود کراسنگ پوائنٹ پر غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ژوب، لورالائی، شیرانی اور دیگر قریبی علاقوں سے آنے والے تارکین وطن کو بادینی-شنبند کراسنگ کے ذریعے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ نوشکی، چاغی، خاران، واشوک اور ساحلی ضلع گوادر سے آنے والوں کو دیگر کراسنگ پوائنٹس سے افغانستان بھیجا جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چمن بارڈر کراسنگ سے رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے والے غیرقانونی افغان شہریوں کی تعداد 88 ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔دوسری جانب محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں غیرقانونی تارکین وطن کو سکیورٹی کےلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر انہیں واپس نہ بھیجا گیا تو 2040 تک صوبے کی ڈیموگرافی مکمل طور پر بدل جائے گی۔ محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ 4 دہائیوں میں غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
کراچی اور کوئٹہ میں کانگو وائرس کا پھیلاو¿
کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال میں کانگو بخار کے حالیہ پھیلاو¿ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بلوچستان میں مریضوں کو بر وقت مناسب طبی امداد فراہم کی جاتی تو جانی نقصانات سے بچا جاسکتا تھا جبکہ صوبے میں طبی سہولیات کی فراہم کی کمی کے باعث عوام اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے پیاروں کو علاج کےلئے کراچی لانے پر مجبور ہیں۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں کوئٹہ کے سنڈیمن پراونشل ہسپتال میں کانگو کریمین ہیمرجک فیور(سی سی ایچ ایف)کے پھیلنے کے بعد 5 نومبر تک ایک درجن سے زائد مریضوں کو کراچی منتقل کیا گیا، ان مریضوں میں زیادہ تر شعبہ صحت میں کام کرنےوالے افراد تھے۔ بلوچستان کے سرکاری حکام کے مطابق ایک زیر علاج مریض کے سی سی ایچ ایف مثبت ٹیسٹ کے بعد بخار کی وباءپھوٹی، بعد ازاں اس مریض کو کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ کراچی کے نجی ہسپتال میں داخل ایک ڈاکٹر سمیت 3مریض دم توڑ چکے ہیں۔ تازہ ترین متاثرہ فرد جو کوئٹہ کے ہسپتال میں وارڈ بوائے تھا، 6نومبر کو کراچی کے ایس آئی ڈی ایچ آر سی میں پہنچنے کے فوری بعد دم توڑ گیا۔ ایس آئی ڈی ایچ آر سی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ تشویشناک حالت میں مریضوں کو ایئر ایمبولینس فراہم کی جانی چاہیے اور سی سی ایچ ایف کے مریضوں کا علاج کوئٹہ میں ہی کیا جانا چاہیے جبکہ ایسے مریضوں کی کسی دوسری جگہ منتقلی کے دوران اس کےساتھ موجود اٹینڈنٹ کے متاثر ہونے کا بہت زیاد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ سی سی ایچ ایف کے مریضوں کو فیملی کے ہمراہ اور مناسب ذاتی حفاظتی سامان کے بغیر منتقل کرنا خود بڑا خطرہ ہے جس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ انفیکشن کے شکار مریضوں کو دوسرے شہر منتقل نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ انہیں ان کے اپنے شہروں میں مناسب تربیت اور ضروری سامان کی فراہمی کے ساتھ مکمل طبی امداد فراہم کی جانی چاہیے ۔ گانگو وائرس کا تیزی پھیلنا تشویش ولی بات ہے حکومت اس معاملے کو نظر اندازنہ کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے