فلسطین کے علاقے غزہ میں 40 روز سے اسرائیلی دہشتگردی جاری ہے تاریخ کی بد ترین بمباری کرکے غزہ کے علاقے کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 71 سے زیادہ مساجد شہید اور 130 کو نقصان پہنچا ہے تین گرجا گھروں پر بھی بمباری کی گئی ہے۔ غزہ کے دو بڑے ہسپتالوں کی عمارتوں پر بمباری کرکے غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ 253 اسکولوں کی عمارتیں کھنڈر بنا دی گئیں جس میں ایک اقوام متحدہ کا سکول بھی شامل ہے۔ اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعدا گیارہ ہزار ر سے تجاوز کر چکی ہے جن میں چار ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف بھی اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے جبالیہ پناہ گزیں کیمپ پر حملہ کرکے کافی تعداد میں فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔ اب اسرائیل کے شہری بھی غزہ پر وحشیانہ بمباری اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے پر تنگ آ چکے ہیں۔ حماس کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے 200 شہریوں کو اسرائیلی حکومت رہا کرانے میں ناکام رہی ہے اسی لئے ان کے ورثا اسرائیل کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے نہتے فلسطینی شہریوں پر بمباری کر کے تمام حدیں عبور کر دی ہیں وہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانا چاہتا ہے لیکن حماس بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہاہے۔ حماس کی لیڈرشپ نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جتنے زیادہ مظالم ڈھائے گا اتنا ہی وہ غزہ کی ریت میں دھنستا جائےگا پھر اسے واپسی کا را ستہ بھی نہیں ملے گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ عرب ممالک ایران ترکی چین پاکستان اور روس چاہتے ہیں کہ اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو جائے لیکن امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں اسرئیلی فوج کی درندگی نظر نہیں آتی در اسرائیل فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں منعقد ہوا۔اسلامی ممالک کے سربراہوں نے اسرائیل کے حق دفاع کو مسترد کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اسرائیلی جارحیت روکنے اور امدادی کارروائیاں تیز کرنے پر زور دیا۔ سعودی ولی عہد نے کہا کہ غزہ میں جرائم کا زمے دار اسرائیل ہے۔ ایرانی صدر نے کہا صیہونی فوج کو دہشتگرد قرار دیا جائے۔ فلسطیی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ سے انخلا قبول نہیں۔ ترک صدر طیب اردگان نے کہا مغرب کی خاموشی کو شرمناک قرار دیا۔ آخر میں مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ صیہونیوں کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے اسرائیل کا حق دفاع کا دعویٰ اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی سیاسی حل مسترد کر دیا۔ اس اجلاس میں شریک سربراہان کی اکثریت اتحادیوں اور اسرائیل کیخلاف سخت اقدامات کی حامی نظر آئی جبکہ متحدہ عرب امارات سمیت چار ممالک اسرائیل کےخلاف سخت اقدام کیخلاف تھے۔ نگران وزیراعظم انوارلحق کاکڑ نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی اور فلسطینیوں سے مکمل یکجہتی کا اعلان کی۔ پاکستان کی حکومت اور عوام فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب مسلم امہ کے جاگنے کا وقت ہے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر سوچنا ہو گا۔ زبانی جمع خرچ کا وقت گزر گیا۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب آٹھ کروڑ کے قریب ہے جو ورلڈ پاپولیشن کا چوبیس فیصد ہے جبکہ یہودی صرف سولہ کروڑ ہیں۔ دنیا بھر کے کاروبار پریہودیوں کا کنٹرول ہے۔ امریکہ کا ہر قسم کا میڈیا بیوروکریسی ملٹی نیشنل کمپنیاں اسلحہ ساز فیکٹریاں یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ عرب ممالک کے پاس دولت کی فراوانی ہے اور وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن وہ مختلف بلاکس میں بٹے ہوئے ہیں اسی لئے مسئلہ فلسطین پر یکجا نہیں ہو پا رہے۔ اب فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے جلوس ریلیاں نکالنے اور نعرے بازی کا وقت گزر کیا اب عملی اقدامات کا وقت ہے اور عرب ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو جہاد کا اعلان کردینا چاہیے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس تو اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ان تمام ممالک میں یہودی چھائے ہوئے ہیں ۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن میں یہودی پیسہ پانی کی طرح بہا کر اپنی پسند کا امیدوار منتخب کرواتے ہیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اسرائیل کے قیام سے فلسطین کے سینے میں امریکہ نے ہی خنجر گھونپا تھا۔ اسرائیل کے حق دفاع کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسرائیل غزہ کو فلسطینی بچوں کا قبرستان بنا دے ہسپتالوں کو تباہ و برباد کر دے اور زخمیوں کا علاج نہ ہونے دے۔ انسانیت سسکتی رہے اور پانی خوراک گیس اور بجلی بند کر دی جائے اور لوگوں کو گٹر کا پانی پینے پر مجبور کر دیا جائے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں گھس کر گرفتاریاں کی ہیں۔ اسرائیلی فوج کےاس بہیمانہ اقدام پر دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان ممالک کو ترکی کی طرح اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے اپنے سفیروں کو واپس بلا لینا چاہیے۔ مسلم امہ اور اقوم متحدہ کی طرف سے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو نکیل نہ ڈالی گئی تو یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔