کالم

غلطی کا اعتراف۔۔۔اصل بات

a r tariq

خاتون جج کو دھمکیاں،عمران خان نے عدالت سے معافی مانگ لی،خاتون جج کے گھر جا کر بھی معافی مانگنے کےلئے تیار،جسے عدالت نے سراہا ہے لیکن اس فیصلے کو عمران خان کی اپنی مرضی کہا ہے۔ عمران خان کی اس بات پر معزز عدلیہ نے عمران خان کے خلاف فرد جرم م¶خر کرکے عمران خان کو تین اکتوبر کو اپنا بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دے دیا ہے۔یہ معافی قبول ہوگی یا نہیں،فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران کو عدالت سے ملنے والا ریلیف وقتی یا خطرہ ابھی باقی،دیکھئے کیا بنتا ہے۔کیا ہونا کیا نہیں ہونا،اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ایک بات عمران خان کو ضرور فائدہ دے گی کہ انہوں نے جس کھلے دل اور واضح ذہن کے ساتھ اس معاملے پر معافی مانگنے کا فیصلہ کیا ہے یہ ایک اچھی مستحسن روایات ہے۔ اگر کچھ غلط ہو جائے تو اس پرخوامخواہ میں اڑ جانا اچھی بات نہ ہے بلکہ غلطی/خامی کا اعتراف کرلینا ہی اصل بات ہے۔امید ہے کہ عمران خان کے اس بیان کے بعد بیان حلفی جمع کرائے جانے کے بعد یہ معاملہ عمران معافی کی صورت میں نکلے گا اس لیے کہ عمران خان کے اس بیان کو عدلیہ کی جانب سے سراہا گیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے معافی مانگنے کی بات میں عمران خان کےلئے آئندہ کے لیے ایک سبق چھپا ہے کہ انسان جب بھی بولے،ہوش کے ساتھ بولے،جب بھی بولے،تول کر بولے، زبان کی پھسلن انسان کو بہت دور لے جاتی ہے۔کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی ہے ۔ انسان کے جسم میں زبان ایک ایسا لوتھڑا ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی مگر ہڈی تڑوادیتی ہے ۔ بے وقت کا بولنا، بغیر کسی مقصد کے بولنا، فضول اورلغویات پر مبنی احمقانہ باتیں،آئین و قانون سے ماورا باتیں، ایڈوانس باتیں،اپنے خیالات و اختیارات سے تجاوز باتیں کسی طور مناسب نہیں ہے۔بات وہی اچھی جو اپنا مقام ومرتبہ رکھتی ، بے مقام اور بے وقار باتیں گھاٹے کا سودا ہوتی ، اجتناب ہی اس کا آخری حل ہے۔ اقتدار کے چھن جانے کے غم میں ایسی باتیں ٹھیک نہ اور پھر ایک ایسے وقت میں جب آپ اپنے اقتدار کی صحیح طرح سے آبیاری بھی نہ کر سکے۔جس سلطنت کی حفاظت آپ مردوں کی طرح نہیں کر سکے ، اس پر اب عورتوں کی طرح آنسو بہانے کا کیا فائدہ؟جب اقتداراور اختیار چلا گیا ، اب امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے میں کیا رکھا ؟ ۔ امریکن عہدیدار ”ڈونلڈ لو” کا اس سازش میں اہم کرداراورشریک کار ہونے کا قصہ کس کام کا ؟ ۔ اپنوں کی بے وفائیوں کا تذکرہ کیوں؟۔یہ کیا ہوا؟یہ کیوں ہوا؟یہ کب اور کیسے ہوا؟ کہانی میں کیا رکھا؟۔اب کیا ہو جب چڑیاں چگ جائیں کھیت۔ جب آپ وزیراعظم ٹائم میں ایک سلطان کی حیثیت سے کچھ سمجھ نا سکے، کچھ کر نہ سکے، اب کیا تیر مار سکتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ ان دھرنوں / جلسوں / احتجاجوں میں کیا رکھاہوا،کیا آپ اپنے اس عمل سے کچھ اچھے کی امید رکھتے ہیں تو آپ بےوقوف ہیں۔ یہاں آپ جیسے پتہ نہیں کتنے آئے،کام ختم بات ختم،ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوئے،ٹوکری میں یا گھر کی راہ لئے ہوئے۔ زیادہ دور نہ جائیے نواز شریف بھی کبھی اس ملک کے وزیر اعظم تھے،اپنے آپ کو اس ملک کی ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے ۔ بھارت سے پاگل پن کی حد تک دوستی کا جنون ، ان کے آگے پیچھے بچھ بچھ جانا اور امیرالمومنین بننے کا شوق انہیں لے ڈوبا،اب وہ کہیں بھی نہیں ہیں۔ آپ بھی وزیراعظم تھے اب کچھ بھی نہیں ہیں۔نواز شریف ملک کے باہر کچھ نہیں ہے اور آپ ملک کے اندر کچھ نہیں ہیں ۔ کہنے کو لیڈر وہ بھی ہے بتانے کو لیڈر آپ بھی ہیں۔وہ بھی کچھ نہیں رہا،آپ بھی سب سے گئے۔ وہ بھی گیا،آپ بھی گئے۔میرا یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کوئی شخصیت بھی اہم نہیں ہوتی ، افراد آتے اور جاتے رہتے ہیں ۔ ادارے قائم رہتے ہیں ۔ یہ ادارے ہی ہوتے جو ملک کی آن بان شان ہوتے ہیں۔ بیرون دنیا ہمارا اچھا برا تاثر سیٹ کرتے، ہمارا مقام بڑھاتے گھٹاتے۔جس ملک کے ادارے کمزور پڑ جائیں وہ ملک کسی کام کا نہیں رہتا ہے ۔ اداروں کی مضبوطی میں ہی ملکی استحکام،اداروں کا مقام کم کرنےوالے خفت و شرمندگی اٹھاتے ، قدرومنزلت صرف اداروں کو سربلند کرنے والے ہی پاتے ہیں ۔ آپ کی معافی میں آپ کےلئے یہ باتیں سوچنے کا مقام ہے۔اپنی باتوں میں بہتری /تقاریروں میں پختگی اور دینی معاملات میں صحیح علم لائیے ۔ سیلاب میں گھری ہوئی قوم اور تباہ حال پاکستان کے مناظر میں آپ کی اس مہم بے وقت و فضول سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اگر حقیقی طور پر ملک و قوم کےلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سیلاب زدگان کی خدمت کریں،انسان بچاﺅ، پاکستان بچاﺅ مہم کا حصہ بنئیے۔مشکل کی اس گھڑی میں پاک فوج و دیگر ملکی اداروں کی زندہ و تابندہ آواز بنے۔اپنی قوم اور اپنے ووٹروں کے درمیان پھر یں۔ان کے دکھ درد بانٹیں۔ان کے دکھوں/زخموں پر اپنی محبت و شفقت کا مرہم رکھیں۔آپ قوم کے اصلی و حقیقی لیڈر،ثابت کیجئے۔یقین جانئے جس دن آپ نے اپنے قول و فعل سے ثابت کردیا آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا،سب کچھ خود سے ہی ہو جائے گا۔آپ جو چاہتے ہیں وہ منزل آپ کے پاس خود چل کر آئے گی ۔ جنوبی پنجاب وباقی صوبوں کی عوام آپ کو مسیحا سمجھتی،آپ کو اپنے درمیان دیکھنے کی خواہش مند،کچھ ایسا کر دیجیے کہ آپ کو اور کچھ بھی نہ کرنا پڑے ۔وہ سب جو آپ چاہتے ، ہوگا ، ضرور ہوگا مگر اس کا راستہ دھرنوں / جلسوں / احتجاجوں سے نہیں نکلتا ، جنوبی پنجاب ودیگر جگہو ں پر سیلاب سے پریشان لوگوں کی دل جوئی سے نکلتا ہے یہی وہ راستہ ہے جو آپ کو ممتاز بھی بنائے گا پر وقار بھی اور بااختیار بھی اور سب سے بڑی بات فی الحال اپنے آپ پر کنٹرول پلیز، اچھے وقت کا انتظار کیجئے ۔ وقت ڈھلتا ہوا سایہ،کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، بدلتا ہے اور ضرور بدلتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنے اندراس کے بدلا¶ کی لو جگائے رکھی ہو ۔ بات ہو رہی تھی عمران خان کی معافی کی،معزز اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس صاحب کے اس کیس کے حوالے سے مثبت ریمارکس سے اور پھر عزت مآب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی اس بات سے کہ” تحریک انصاف کو مشورہ ہے کہ واپس جاکر اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کرے” اس بات کی غمازی کر رہاہے کہ اگر عمران خان نے فراخدلی،اچھی نیت اور اچھے جذبے سے معافی مانگنے کی بات کی ہے تو معزز عدلیہ بھی اتنی ہی فراخدلی،نیک جذبے اور عزت و وقار سے عمران معافی قبول کر لے گی ۔ اب تک کی صورتحال سے تو لگ رہا ہے کہ عمران خان بچ گئے ہیں تاہم حتمی فیصلہ معزز عدلیہ نے ابھی کرنا ہے دیکھئے کیا فیصلہ دیتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے