کالم

فتنوں کی نئی شکارگاہ…سوڈان

دنیا کی بساط پر ایک اور ملک فتنوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ سوڈان جو کبھی افریقہ کے دل میں ایک پرامید ملک سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی آگ میں جل رہا ہے جس کے شعلے صرف اس کی سرزمین ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے ضمیر کو بھی جھلسا رہے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس نے ایک زمانے میں آزادی، خودداری اور اسلامی شناخت کے ساتھ اپنے قدم جمائے مگر آج بیرونی سازشوں، داخلی اقتدار کی کشمکش اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی چکی میں پس کر ایک مقتل بن چکا ہے۔سوڈان کی موجودہ صورت حال محض ایک داخلی تنازعہ نہیں بلکہ یہ عالمی سیاست کے گہرے دھوکے کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف فوج اور دوسری طرف نیم فوجی ملیشیائیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور درمیان میں وہ عوام ہیں جو بھوک، پیاس، خوف اور بے گھری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ کبھی دارفور کے نام پر خون بہا، کبھی جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے نام پر سازش رچی گئی اور اب خرطوم سے لے کر نیالا تک ہر شہر فتنہ و فساد کی لپیٹ میں ہے۔ انسانی جان کی قیمت اتنی گر چکی ہے کہ ایک لاش کے اوپر سے گزر کر دوسری لاش تک جانا معمول بن گیا ہے۔یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا، اس آگ کے شعلے برسوں سے سلگائے جا رہے تھے۔ سوڈان وہ ملک ہے جہاں تیل، سونا اور معدنی وسائل کی فراوانی ہے اور جہاں افریقہ کا جغرافیائی مرکز ہونے کی وجہ سے عالمی طاقتوں
کے مفادات گہرے ہیں۔ مغربی قوتوں نے ہمیشہ ایسے ممالک میں انتشار کو ہوا دی جہاں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک کمزور حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی کچھ سوڈان کے ساتھ بھی ہوا۔ کبھی نام نہاد ”جمہوریت” کے نعروں کے ذریعے، کبھی انسانی حقوق کے بہانے اور کبھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے پردے میں سوڈان کو بار بار غیر مستحکم کیا گیالیکن اس المیے کی جڑ صرف بیرونی سازشیں نہیں، سوڈانی قیادت کی ناعاقبت اندیشی، اقتدار کی ہوس اور ذاتی مفادات نے بھی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے۔ جنرل برہان اور حمیدتی کی جنگ دراصل دو شخصیات کی انا کا تصادم ہے جس کی قیمت ایک پوری قوم ادا کر رہی ہے۔ جب قیادت
اقتدار کو خدمت کے بجائے ذاتی ملکیت سمجھنے لگتی ہے تو پھر ریاستیں برباد ہو جاتی ہیں ادارے ٹوٹ جاتے ہیں اور عوام مایوسی کے گھپ اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔دنیا کے ذرائع ابلاغ میں سوڈان کے المیے کا ذکر بھی اب دھیرے دھیرے ماند پڑ رہا ہے۔ کوئی بڑے پیمانے پر انسانی المیہ نہیں دکھاتا، کوئی بھوکے بچوں کی تصویریں صفحہ اول پر نہیں چھاپتا، کوئی اقوامِ عالم کو جھنجھوڑنے والی قرارداد پیش نہیں کرتا، کیوں؟ کیونکہ سوڈان کے پاس تیل ہے مگر وہ مغربی کمپنیوں کے قبضے میں نہیں، وہاں مسلمان بستے ہیں مگر ان کی آہوں کی بازگشت عالمی ضمیر کے کانوں تک نہیں پہنچتی، یہی وہ دوہرا معیار ہے جس نے انسانیت کے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔سوڈان کے شہروں میں ہسپتال ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں اسکولوں میں اب بچے نہیں بلکہ پناہ گزین عورتیں اور یتیم افراد نظر آتے ہیں۔ لاکھوں لوگ پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے