کالم

فلسطینی سرزمین کے حقیقی وارث۔۔۔

یہودیوں کے مطابق آج سے چار ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو دریائے نیل کے سا حل سے لیکر دجلہ فرات تک کا رقبہ دے گا وغیرہ وغیرہ ۔ قوم یہود یہ نہیں بتاتے کہ خدا وند کریم نے وعدہ کے ساتھ شرط رکھی تھی کہ ان کو جنگ لڑنی پڑی گی جس پر بنی اسرائیل نے انکار کردیا تھا اور چالیس سال صحرا میں بھٹکتے رہے ۔ اب ہزاروں سال سوئے رہنے کے بعد پرانا نعرہ لگا دیا ہے جبکہ قوم نوح علیہ السلام تو ان سے بھی پہلے فلسطین میں آباد تھی تو پھر وہ وطن فلسطینیوں کی ملکیت ہونی چاہیے۔اسرائیلیوں کا دوسرا دعویٰ ہے کہ آل ابراہیم علیہ السلام اس مقدس سرزمین کی حقیقی وارث ہے۔اگر دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف حضرت اسحق علیہ السلام ہی فرزند نہ تھے بلکہ ان کے ایک اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی تھے ۔جن کے 12 بیٹے تھے جبکہ اسحق علیہ السلام کے صرف 02 ہیں۔اسی طرح اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے قبائل کی آبادی بھی زیادہ تھی اور نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی آل ابراہیم علیہ السلام میں سے ہی ہیں لہٰذا فلسطین کی مقدس سرزمین پر اہلِ بیت کا زیادہ حق ہے۔اس کے علاوہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کریں گے اصل وارث تو وہی ہوں گے نہ کہ شرک کرنے والے۔وقتاً فوقتاًہزروں سال تک صہیونی طاقتیں گریٹر اسرائیل بنانے کے لئے مربی حکمرانوں کو اکساتے رہے کہ یروشلم کو دارالحکومت بناکرتھرڈ ٹیمپل کی تعمیر شروع کروائی جائے تاکہ گریٹر اسرائیل کا دارالحکومت قائم کیا جاسکے۔پہلے پہل تل اویو کو مرکز بنایا گیا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم (بیت المقدس)کو دارالخلافہ ڈکلیئر کردیا تھا اور یہود کی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے ہزارہا برس پرانا کارڈ کھیل دیا تاکہ الیکشن جیتا جا سکے ۔ 07 اکتوبر 2023ءکو یوکرین جنگ سے تنگ روس نے نیٹو اور امریکہ کو یورپ سے توجہ ہٹاکر مشرق وسطیٰ کی طرف کرنے کیلئے اپنے اتحادی ایران کی مدد سے اسرائیل کو جنگ میں دھکیل دیاہے اور امریکی اور یورپی افواج نے یوکرین کو چھوڑ کر اسرائیل کا رخ کرلیا ہے اور یوکرین کا محاذ کافی حد تک سرد پڑ گیا ہے۔اُدھر اقتصادی راہداری بھارت سے یورپ جو کہ بمبی سے دبئی براستہ بحر پھر دبئی سے سعودیہ سے اردن سے اسرائیل تک براستہ بر اور اسرائیل سے یورپ پھر سمندری راستہ پر بننا تھی اس کے دشمن چین اور اس کے اتحادی بھی اس جنگ میں کود پڑے ہیں تاکہ غزہ کی پٹی 25 میل سے بڑھ کر 50 میل چوڑی ہوجائے تو اس طرح سے کوریڈور گزرنے کا رستہ نہیں رہے گا اور بھارت ، دبئی ، سعودیہ ، اردن اور اسرائیل کے علاوہ رستہ میں آنےوالaxے ممالک اور یورپی یونین مایوس ہوں اور G-20 اجلاس دہلی کا ایجنڈا خاک میں مل جائے،نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔ اب یا تو اسرائیل کے ہمسائیوں شام ، لبنان ، فلسطین اور مصر وغیرہ کو اقتصادی راہداری میں شامل کرنا پڑے گا اور تو اور پاکستان ایران ترکی چین اور روس وغیرہ سے ڈیل کرکے ہی کوریڈور بن سکتاہے۔ ہر دو فریق کو عالمی قوتیں چارج یا ڈسچارج کرتی رہتیں ہیں ، حالانکہ مقصد کو حاصل کرنے کےلئے تو مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے نہ کہ وقفہ وقفہ سے جو باربار چنگاڑی بھڑکتی ہے اس سے اچھا ہے کہ کچھ دیر راکھ میں دبی رہی اور پھر شعلہ بن کر ہی بھڑکے۔یونہی دوسروں کے بھروسے پہ لڑنے سے بہتر ہے کہ کہ اپنی بھرپور تیاری کرکے ہی سفر کا آغاز کریں۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri