اسلامی تاریخ اور انسانی تاریخ دونوں اس بات کی گواہ ہیں کہ اسلامی ریاستوں، مسلم حکمرانوں اور اسلامی معاشروں نے دفاعی اور اقدامی دونوں جنگوں میں انسانوں کے ساتھ کبھی ظلم اور ناانصافی کا برتا نہیں کیا۔ کیونکہ اسلام کی تعلیم ہی یہی ہے کہ جنگ کے دوران بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور بے گناہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ دوسری طرف اسلام عبادت گاہوں، تعلیمی مراکز، طبعی مراکز (اسپتال)، فصلوں، باغات اور درختوں جیسی چیزوں اور مقامات کی حفاظت پر بھی زور دیتا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جو بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں، کیا مغربی دنیا نے خود کبھی ان قوانین پر عمل کیا بھی ہے یا نہیں؟ انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 1 اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اقوام متحدہ کے بنیادی مقاصد "بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا” اور "نسل، جنس، زبان، یا مذہب کے امتیاز کے بغیر سب کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو فروغ دینا اور حوصلہ افزائی کرنا” ہیں۔ آرٹیکل 55 "نسل، جنس، زبان، یا مذہب کی تفریق کے بغیر سب کے لیے انسانی اور بنیادی آزادیوں کے عالمی احترام اور ان کی پابندی کو فروغ دینے” کے عزم کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ رکن ممالک سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان اہداف کے حصول کے لیے "مشترکہ اور علیحدہ اقدام” کریں۔ اسی طرح، دوسرے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 12 میں کہا گیا ہے کہ "مسلح افواج کے ارکان اور دیگر افراد، جو سمندر میں ہیں اور جو زخمی، بیمار، یا جہاز میں تباہ ہوئے ہیں، ان کا ہر حال میں احترام اور تحفظ کیا جائے گا اور ان کے ساتھ بغیر کسی منفی امتیاز کے انسانی سلوک کیا جائے گا۔ غیر محفوظ علاقوں اور زخمیوں، بیماروں اور جہاز کے تباہ ہونے والے مکانات پر حملہ کرنا ممنوع قرار دے دیا”۔ لیکن انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے باوجود المیہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں نے ہمیشہ ان قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے کمزور ممالک کا استحصال کیا ہے۔ اس کا حال ہی کا منظر یہ ہے کہ 7اکتوبر سے فلسطینیوں کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت میں 3500 سے زائد افراد شہید ہو گئے ہیں۔ شہدا میں 1757 بچے اور 976 خواتین شامل ہیں۔ دوسری جانب زخمیوں کی تعداد 13000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر اسرائیلی فسطائیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ چند روز قبل اسرائیلی فوج نے غزہ کے الااہلی ہسپتال پر طیاروں سے بمباری کی جس میں ایک ہزار سے زائد زخمی فلسطینی مسلمان شہید ہوئے جن میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہیں- بمباری سے ہسپتال کی عمارت مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی۔ یہ بات تو بلکل واضح ہے اور اس میں ابہام اور دو آرا کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسرائیل ایک غیر قانونی اور غیر آئینی ریاست ہے جسے 1948 میں امریکہ اور برطانیہ نے ایک مشترکہ منصوبے کے تحت قائم کیا تھا، کیونکہ امریکہ مشرقی وسطی کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہ رہا تھا۔ اور ایک فوجی چال ((ٹریٹجک ڈیپتھ)کی تلاش میں تھا، تاکہ وہاں سے ایشیائی ممالک کے سیاسی نظام کو کنٹرول کرے، جس کے لیے اس نے یہودیوں کا انتخاب کیا۔ اور دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کیا اور فلسطین کی مقدس سر زمین میں رہنے والے مسلمانوں سے آزادی اور حق خود ارادیت چھین کر ایک غیر قانونی اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھی۔ 1948 سے لیکر آج تک فلسطین پر یہودی کی طرف سے ظلم ہو رہا ہے۔ اس لیے اگر فلسطینی اپنی آزادی کے لیے دفاعی یا اقدامی کارروائی کر رہے ہیں تو یہ بلکل جائز ہے ۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ کئی دہائیوں پہلے ان سے آزادی چھین لی گئی تھی۔ اس لیے یہ بات دو جمع دو چار کی طرح واضح ہے کہ اپنی آزادی اور حقوق کےلئے لڑنا دہشت گردی نہیں جواں مردی ہے۔
چنانچہ بین الاقوامی قانون بھی کہتا ہے کہ کسی فرد یا ریاست کو بغیر کسی وجہ کے دوسری ریاست کی زمین پر قبضہ کرنے یا ان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ریاست ایسا ایڈونچر یا قدم اٹھاتی ہے تو اسے اس ریاست کی ریاستی دہشت گردی تصور کیا جائے گا، اور وہ ریاست دہشت گرد قرار دی جائے گی۔ آج غزہ فلسطین بھی اسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اسرائیل نے امریکہ اور ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین میں کھلم کھلا بین الاقوامی دہشت گردی کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے مقدس مقامات جیسے بیت المقدس کا محاصرہ کرکے فلسطینیوں کو ان کی مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، دوسری طرف ان کی نسل کشی اور قتل عام کیا جارہا ہے اور خواتین کی سالمیت اور عصمت کو پامال کیا جارہا ہے۔ تاہم یہ انصاف کی چار دیواری سے بھی بالکل باہر ہے جہاں انسانی حقوق اور آزادی کے تحفظ کی بات کرنے والی عالمی تنظیمیں فلسطین میں بے گناہ اور کسمپرسی کی حالت میں محصور لوگوں کے لیے کوئی موثر اور ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کرتیں۔ جس کے نتیجے میں آئے دن بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ امریکہ کے خوف کی وجہ سے مسلم ممالک بھی کوئی موثر کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک نے بس اتنا تیر مارا کہ ہم فلسطین کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہے ہیں۔ کوئی ملک آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ لیکن میں حیران ہوں کہ اس کے برعکس امریکہ جو اسرائیل سے تقریبا 9500 کلومیٹر دور فاصلے پر ہے، پھر بھی اٹھارہ عرب ممالک کے درمیان غیر قانونی اسرائیلی ریاست کی حمایت کررہا ہے۔ اور پوری دنیا اس سے واقف ہے کہ امریکہ نے ماضی قریب میں خاص طور پر عراق اور افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ جس پر پوری دنیا میں خاموشی چھا گئی تھی۔ ایک معروف عراقی باڈی کانٹ پروجیکٹ نے رپورٹ کیا کہ امریکہ نے عراق میں 200,000 سے زیادہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ اسی طرح بران یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز نے رپورٹ کیا کہ افغانستان میں امریکہ نے ایک لاکھ سے زائد انسانوں کا قتلِ عام کیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے تکلیف اور حیرت ہوتی ہے کہ ہر جگہ امریکہ جارحانہ انداز میں مداخلت کر رہا ہے لیکن کوئی انہیں دہشت گرد کہنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف اگر ایک ملک اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی جارحیت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے، کہ سات اکتوبر سے فلسطین پر جاری جارحیت میں امریکہ اعتماد کے ساتھ اسرائیل کےساتھ کھڑا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ یاد رکھیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، لہٰذا اسرائیل اور امریکہ کو اس فاشزم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کالم
فلسطین عالمی دہشت گردی کی زد میں
- by web desk
- اکتوبر 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 272 Views
- 2 سال ago