حضرت محمدۖ نے فرمایا تھا ” الحُسینِ مِنِی وَ اَنا ُلحُسین” ۔ترجمعہ : حُسین مجھ سے ہے اور میںۖ حُسین سے ہوں ۔اُس وقت صحابہ کرام نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ آپ نے ایسا کیوںکہا کہ میںۖ حسین سے ہوں ۔یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ حُسین آپ ۖکے نواسہ ہیں اور وہ آپ سے ہیں مگر میں حُسین سے ہوں سے کیا مُراد ہے۔مگرجب 1 6 ہجری میں نواسہ رسول نے دین کی بقاء کے لیے کربلا میں دین کی بقاء کی جنگ میں اپنی اورا پنے گھرانے کی قربانی دی تو یہ بات سمجھ آگئی کہ آپ نے یہ کیوںکہاتھا کہ میںۖ حُسین سے ہوں کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب دین محمدی ۖکو کوئی اور نہیںبلکہ میرا نواسہ ہی سربلند رکھنے میںکامیاب ہوگا۔بے شک اللہ اُن سے محبت کرتاہے جو حُسین سے محبت کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے وسیع کینوس میں چند واقعات نے اجتماعی ضمیر کو اتنی گہرائی کھینچاہے جن کی حقانیت تاابد انسانی معاشروں میں حق وباطل ،سچ وجھوٹ اورہر معاشرہ میںانسانیت اور انصاف پر واضح لکیرکھینچنے میں مدد دیتے رہیں گے۔کربلا والوں کی جنگ محض دوشہزادوں کے درمیان جنگ نہ تھی ،نہ یہ اقتدارکے حصول کی جنگ تھی یہ حق وکفر کا معرکہ تھا ۔ کربلا کا واقعہ٦١ہجری میں محرم کے مہینے میں پیش آیا ۔جب یزید کو اقتدار کی مسند پربٹھایا گیا تو اُس نے اقتدارکے نشے میں تمام دینی احکامات کی پیروی کو نظرانداز کرنے لگا۔شراب اور دیگر بُرائیوں کے نشے میں مدہوش ہونے لگا۔ وہ بطور حکمران دین محمدی ۖ کے احکامات پر پیروی نہیں کررہا تھا بلکہ اِن کی خلاف ورزی کررہاتھا۔ یہ حُدودِ خدا پار کرنے والا بن گیا تھا۔یہ اطاعت شیطان کرنے والا بن گیا تھا ۔شریعت محمدی ۖکو یزید نے تخت پر بیٹھنے کے بعد بھلا دیا اور رشتوںکے تقدس ،اسلامی قوانین کو اُس نے اپنے قدموں تلے روند دیا۔امام پاک پھر کیسے ایسے فاسق جابر ظالم اور نمائندہ ابلیس کی بیعت کرتے ۔آپ نے اِس کے خلاف اعلان حق کا اعلان کیا۔نواسہ رسول نے یزیدیت کی بیعت نہ کرکے اُس کے غیر شرعی احکاما ت کے خلاف حق کا پرچم سربلند کیا۔مدینہ اور مکہ سے نکلتے وقت آپ کو بہت سے اصحاب اور بزرگوں نے کوفہ جانے سے منع کیا کیونکہ کوفہ والے وفادار نہیں ہیں اور ہم نے رسول اللہ سے سُن رکھا ہے کہ آپ ظالموں کے ہاتھوں قتل ہوں گے اور لوگ خاموش رہیں گے یا اگر جاتے ہو تو خواتین کو نہ لے جایں ۔جب بیعت سے اِنکاری پر امام عالی مقام کو کوفہ جانے سے روکا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ُاے بندگان خدا!!! کیا تم اس چیز کا مشاہد ہنہیں کر رہے ہو کہ حق پر عمل نہیںہورہا ہے اور باطل کی مخالفت نہیں کی جارہی۔گمراہی کے اس ماحول میںضروری ہے کہ مردِ مومن حق کا طلب گاراورخُدا سے ملاقات کا متمنی ہو۔میں اِس مرحلے پر عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیع دیتاہوں۔میرے لیے یزید جیسے فاسق اِنسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی بجائے موت کی آغوش ہزار درجہ بہترہے ُ۔میںشہادت کو سعادت وخوش بختی اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت و عار سمجھتا ہوں”۔یہ وہ ہستی جو شریعت محمدی کو بچانے کی جنگ میں اپنے گھر والوں و چند صحابہ کرام کے ساتھ کربلا کے میدان میںدو محرم الحرام کو پہنچے اور فرمایا بے شک میں شہادت کو سعادت اور خوش بختی ایک جابر وظالم فاسق حکمران کے خلاف سمجھوں گااور فرمایا تم یہ جان لو کہ میں اِنصار اور اِصحاب کم ہونے کے باوجود بھی حق وصداقت کیلئے جنگ کرئوں گا۔اور پھر کربلاکی سرزمین پر دس محرم کو ایسی بے مثال قربانی اپنی اور اہل خانہ وصحابہ کرام کی دی کہ کربلا کی زمین پر اللہ کی شریعت کا پرچم بلند کرنے والے اِن بہتر جانثاروں کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ۔چھ ماہ کے علی اصغر سے لے کر اپنے سترسالہ بوڑھے دوست حبیب ابن مظاہر ،جواں سال بیٹے علی اکبر ،وفادار بہادربھائی عباس،اپنے بھتیجے وہونے والے داماد تیرہ سالہ شہزادہ قاسم دیگر صحابہ کرام کی اِس معرکہ حق وکُفر میں شہادت ایک لازوال قربانی ہے ۔بھو کا وپیاسا رہ کر یہ حُسینیت کے پرچم تلے کھڑے جانثار یزیدیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کرکھڑے رہے۔شب عاشورہ کی رات کا ایک پہر امام عالی مقام نے اپنے اِصحاب کے ساتھ گزارا۔فرمایا کہ ”یہ لوگ میری اور میرے اہل خانہ کی جان کے دُشمن ہیں ۔میںتم سب کو جنت کی بشارت دیتاہوں ۔چراغ گُل کر رہاہوں آپ کو بخوشی جانے کی اجازت دے رہاہوں۔پھر جب دُوبارہ چراغ جلایا گیا تو تما م اصحاب میںسے کوئی بھی نہ گیاتھا ۔سب فرمانے لگے ہمارے والدین ،بچے آپ پر قربان ہوں ہم کیسے آپ کو اِس وقت مشکل میں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔روزمحشر کوآپکے نانا محمدۖ کو کیا جواب دیںگے۔وفا کی ایسی تصویر آپ کو کسی بھی جگہ نہیںملے گی ۔ اور پھر جب سب جان نثار شہید ہوگئے تو دس محرم خود نیزوں کی چھائوں میں نماز کی حالت میں سجدہ شبیری دے کر اپنی نصرت کا اعلان غاضبوں کیلئے کیا۔یزید کی فتح عارضی تھی اور حُسین کی جیت ہمیشہ کیلئے تھی ۔سب سے بڑا معرکہ تھا جس میں دُنیاوی فتح یزید کو چند دِنوں کے لیے ملی مگر کربلا کے شہیدوں کو ابدی فتح کا پیغام اللہ کی طرف سے آیا کہ تمھارا نام رہتی دُنیا تک ”حسین زندہ باد ہے یزید مردہ باد کی بازگشت کے ساتھ بلند ہوتا رہے گا اور آج دیکھیں تو ایسا ہی ہے ہر سال محرم عقیدت واِحترام سے منایا جاتاہے ۔ کربلا والوں کے مزارات پر ہر وقت اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں ۔ پُوری دُنیا سے زائرین سلام عقیدت کیلئے آتے ہیں ۔ امام عالی مقام واُن کے ساتھیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جاتاہے۔ اور یزید واُس کے حواری جن کی قبروں کا بھی کسی کو نہیں پتہ تک نہیں ہے۔ وہ سب کردار روزِمحشر تک قبروں میں سخت عذاب بھگت رہے ہیں اور پھر روزِمحشر میں اِن کو عبرت ناک سزا سُنا کر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ بی بی زینب کا دربار یزید میں وہ بیان کردہ خطبہ جب یزید کے سامنے شیر خدا کی بیٹی نے درباری مولوی کی آیت ُبے شک اللہ ہی جسے چاہتاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہےُ پر فرمایا ُقرآنی آیتوں کو اپنے مقاصد کیلئے مت استعمال کرئو۔چند دنوں میں ہی تُم اور تمہارے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے اور اُس وقت اذان ہورہی تھی آپ نے کہایہ جو اذان ہورہی ہے غورسے سُنو یہی میرے بھائی کی فتح کی نوید دے رہی ہے اور تاحشر تک یہ نوید اذان پانچ وقت میں سُنائی دیتی رہے گی ۔بے شک حُسین کل بھی زندہ تھے آج بھی زندہ ہیں اورتاحشر تک ان کا نام زندہ رہے گا۔پیغام حُسین ہی اسلام کی بقاء ونصرت کا پیغام ہے ۔ فلسفہ کربلا مسلم اُمہ کو یکجا کرنے کیلئے ایک بہترین طاقت ہے۔ انسانیت کاپیغام ،حق وانصاف کا پیغام ہے ۔آج کے دور میں اُمت مسلمہ کو فکر حُسینی کے فلسفہ کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔
یزید تیر ا تخت وتاج دو گھڑی کا تھا
ہے آج بھی دِلوں پر حکومت حُسین کی
کالم
فلسفہ عاشورہ مسلم اُمہ کیلئے!
- by web desk
- جولائی 6, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 18 Views
- 10 گھنٹے ago