پاکستان کی سرزمین کو اللہ تعالی نے بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ان وسائل میں سب سے بڑی نعمت پانی ہے جو زندگی کی بقا کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان دریاں کی سرزمین ہے، شمال میں گلیشیئرز اور پہاڑوں سے بہنے والے ندی نالے، وسطی علاقوں میں دریاں کا جال اور جنوب میں سمندر، یہ سب اس بات کی ثبوت ہیں کہ اس ملک کو فطری طور پر پانی کی کمی نہیں ہونی چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں جب برسات ہوتی ہے تو یہ پانی ہمارے لیے تباہی لے کر آتا ہے۔ سیلابی ریلے بستیاں اجاڑ دیتے ہیں، کھڑی فصلیں برباد ہو جاتی ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں لیکن یہی ملک جب خشک موسم یا سردیوں میں داخل ہوتا ہے تو فصلوں کے لیے پانی میسر نہیں ہوتا، ٹیوب ویل خشک ہو جاتے ہیں اور کسان بار بار آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید بارش ہو جائے۔ یہ تضاد اس بات کی علامت ہے کہ ہم پانی کو محفوظ کرنے اور استعمال کرنے کے قابلِ عمل نظام بنانے میں ناکام رہے ہیں۔پاکستان کے پاس اس وقت بڑے ڈیم صرف چند ہیں، جن میں تربیلا اور منگلا شامل ہیں لیکن ان ڈیموں کی صلاحیت بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر مزید بڑے ڈیم بنائے جائیں تو نہ صرف سیلابی پانی کو روکا جا سکتا ہے بلکہ بجلی کی پیداوار اور زرعی زمینوں کو بھی سہارا دیا جا سکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ دہائیوں سے سیاست کی نذر ہے حالانکہ اگر یہ ڈیم بن جائے تو پاکستان کی معیشت کو نئی جان مل سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیم بنانا کسی ایک صوبے یا حکومت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور اگر ہم نے اس پر قومی اتفاق رائے پیدا نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں برسوں سے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے جدید طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ ریچارج ویلز اور واٹر ہارویسٹنگ سسٹم ایسے ہی طریقے ہیں جن کے ذریعے بارش کا پانی زمین کے اندر پہنچا کر زیرِ زمین پانی کو دوبارہ بھرا جاتا ہے۔ پاکستان میں زیرِ زمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے، اگر ہم بارشوں کا پانی زمین میں پہنچا دیں تو یہ کمی کسی حد تک پوری ہو سکتی ہے۔ شہروں میں چھتوں سے بہنے والا پانی نالیوں میں ضائع ہو جاتا ہے، اگر ہر گھر میں ایسا نظام بنا دیا جائے کہ یہ پانی ریچارج بیسنز کے ذریعے زمین میں داخل ہو تو نہ صرف پانی ضائع ہونے سے بچ جائے گا بلکہ مستقبل کے لیے بھی ذخیرہ ہو جائے گا۔ بھارت کے کئی شہروں میں یہ قانون بنایا گیا ہے کہ ہر نئی عمارت میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا انتظام لازمی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں بھی اس طرز کی قانون سازی کی ضرورت ہے۔پانی کے تحفظ کے لیے جدید آبپاشی کے طریقے اپنانا بھی ناگزیر ہے۔ ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم رائج کر دیے جائیں تو پانی کی بہت زیادہ بچت ہو سکتی ہے۔ دیہات اور شہروں میں کمیونٹی کی سطح پر مصنوعی جھیلیں اور ذخائر بنا لیے جائیں تو بارش کا پانی ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔پانی کو محفوظ کرنے کے لیے سب سے اہم کام شجرکاری ہے۔ درخت زمین میں نمی کو برقرار رکھتے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح کو مستحکم کرتے ہیں اور کٹا کو روکتے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد سے بھی کم ہے حالانکہ عالمی معیار کے مطابق یہ کم از کم 25 فیصد ہونا چاہیے۔ اگر بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے تو نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم ہوں گے بلکہ بارشیں بھی بڑھیں گی اور پانی کا نظام بہتر ہو گا۔ درخت سیلاب کی شدت کو بھی کم کرتے ہیں کیونکہ یہ پانی کو جذب کر کے زمین میں لے جاتے ہیں۔پاکستان کے شہروں میں بارش کا پانی اکثر گٹروں اور نالوں میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر اس پانی کو شہری منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے تو بہت بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بارش کے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بارش کے پانی کو فلٹر کر کے گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کے بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی، کوئٹہ، ملتان ، پشاور ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں اس قسم کے پلانٹس لگائے جائیں تو پینے کے صاف پانی کی کمی دور کی جا سکتی ہے۔پانی کا مسئلہ صرف حکومت یا اداروں کا نہیں بلکہ عوام کی ذمہ داری بھی ہے۔ گھروں میں پانی ضائع نہ کیا جائے، نلکوں کو درست حالت میں رکھا جائے، گاڑیوں اور صحن کو دھونے میں کم پانی استعمال کیا جائے۔ اگر ہر فرد اپنی سطح پر پانی کی بچت کرے تو مجموعی طور پر بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی پانی کی اہمیت کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینی چاہیے تاکہ نئی نسل پانی کی قدر سمجھے اور اسے ضائع نہ کرے۔پاکستان کے مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج پانی ہے۔ اگر ہم نے آج اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں پیاس سے تڑپیں گی۔ پانی کو صرف ایک قدرتی وسیلہ سمجھنے کے بجائے قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر لینا ہو گا۔ سیلاب کو صرف آفت سمجھنے کے بجائے ہم اسے نعمت میں بدل سکتے ہیں۔ یہ پانی اگر محفوظ کیا جائے تو کھیتوں کو سیراب کر سکتا ہے، شہروں کو زندگی دے سکتا ہے اور صنعتوں کو سہارا دے سکتا ہے۔ہمیں ایک جامع قومی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں ڈیمز اور نہروں کی تعمیر، جدید آبپاشی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے، شجرکاری، زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی بحالی اور عوامی آگاہی سب شامل ہوں۔ صرف اسی طرح ہم پانی کے بحران سے نکل سکتے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہو گا جب پانی محفوظ ہو گا۔

