کالم

فون ہیکرز اور عوامی مسائل پر فتویٰ کیوں نہیں دیتے ؟

وی پی این کے استعمال کو اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر شرعی قرار دیکر ماضی کے فتوﺅں کی یاد تازہ کر دی گو کہ اب یہ فتویٰ یو ٹرن کی نذر ہو چکا ہے لیکن ان کے بیان نے پیالی میں طوفان برپا کئے رکھا۔ فتویٰ دینے والے بھی کہا جاتا ہے یہ” شرعی ٹھیکیدار” ہوتے ہیں جو کسی خاص مقصد کیلئے فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ وی پی این اور فتویٰ دونوں گوروں کی ایجاد ہیں۔ اسے غیر شرعی کا فتویٰ دینے کے بجائے فون ہیکروں اور راستوں کی بندش کرنے پر پہ فتویٰ دے دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ فون ہیکر وہ مخلوق ہے جو فون کے ذریعے حرام پیسے بناتے اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرتے ہیں۔ ہیکر فون نمبر سے آپ کے جاننے والوں کو آپ کے ہی جانب سے فون پر میسج لکھتے ہیں ، رقم کیلئے کال کرتے ہیں ۔(رقم تین چار لاکھ سے چار پانچ ہزار تک بھی ہو سکتی ہے )۔ اب سائنس نے ترقی کر لی ہے جس سے آپ کی آواز جیسی ایپ سے دوسروں کی آواز کی کاپی کی جا سکتی ہے۔ سن کر اپ سمجھتے ہیں یہ وہی ہے جس کے نمبر سے کال آئی ہے۔جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔آپ اس کا رونا سن کر اسے رقم بھیج دیتے ہیں۔ ایسا چند روز قبل ہمارے سینئر محترم ساتھی دوست سید منظور گیلانی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سیاسی شخصیت کے مالک ہیں۔ حال ہی میں ان کا فون ہیک ہو گیا تھا جس کا بھر وقت پتہ چل جانے سے ان کے دوست عزیز و اقارب کسی مالی نقصان سے بچ گئے ۔ اب سابق جسٹس وجیہہ الدین کا بھی فون ہیک ہو چکا ہے۔ دن بدن ہیک ہونےوالوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لہٰذا ہوشیار رہیں۔ لہٰذا سب سے گزارش ہے کہ جب بھی ایسا کوئی میسج اپ کے کسی جاننے والے عزیز دوست کا ملے یا فون کال آئے اس پر آنکھیں بند کر کے فوری عمل نہ کریںبلکہ اپنے کسی دوسرے ذرائع سے کنفرم کر لیا کریں کہ واقع ہی یہ دوست کسی مشکل میں ہے اسے پیسوں کی ضرورت ہے یا کسی نے انکا فون ہیک کر لیا ہے جس کا فون ہیک ہو جائے وہ فوری طور پر سائبر کرائمز کے کسی قریبی افس میں جائیں ۔ اپنے فون ان سے دوبارہ بحال کرائیں ۔ ہیکر نے جس سے رقم اپ کے فون سے لے لی ہے وہی شخص سائبر کرائم میں اپنی ایف آر درج کرا کر ہیکروں سے رقم واپس لے سکتا ہے ۔ ان حالات میں فتویٰ ان ہیکروں کیخلاف دینا تو بنتا ہے ۔ ان کیخلاف بھی فتوے دیئے جاتے جو اشیاءمیں ملاوٹ کرتے ہیں کم تولنے ہیں، انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں آئین اور قانون کے تحت فیصلے نہ کرنےوالے ججزپر فتویٰ دیتے زمینوں پر قبضہ کرنےوالوں کیخلاف اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ دیتے تو سماج میں بہتری آتی یا پھر یہ ان لوگوں کیخلاف فتویٰ دیتے جو بزنس کے نام کے ساتھ اسلامی نام لکھ کر دو نمبر بزنس کرتے ہیں ان کیخلاف فتوی دیتے تو بہتری دیکھنے میں آتی ۔دنیا ساری میں فتویٰ دینے والے ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ جن کا کام فتویٰ دینا ہوتا ہے ان کا فتویٰ اس وقت بھی آیا تھاجب فوٹو کیمرہ یہاں نیا نیا آیا تو اس پر بھی تصویر بنانے کے حوالے سے فتویٰ دیا گیا تھا، فتویٰ دینے والے کہا کرتے تھے کہ تصویر بنانا اتنا ہی حرام ہے جتنا بت پرستی کرنا، کیونکہ تصویر بھی ایک بت کی مانند ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ویسے ہی فتویٰ دیا تھا کہ ”وی پی این” لگانا انٹرنیٹ استعمال کرنا حرام ہے اور اس کا استعمال کرنے والا گنہگار ہو گا ۔ یہ جہالت کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ ایسے علماءکو تاریخ میں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔ امام احمد بن حنبل نے خلیفہ المامون کے درباری علما کے کچھ فرمائشی فتوں کو مسترد کیا تو حکمرانِ وقت نے اپنے ہاتھ سے ان کا سرقلم کرنے کافیصلہ کیا ۔ اس سے قبل کہ المامون ان کا سرقلم کرتا حکمرانِ وقت کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بن گیا۔ اس نے اپنے دربار میں امام احمد بن حنبل کو اپنے سامنے کوڑے لگوائے۔ امام احمد بن حنبل اس وقت روزے سے تھے، کوڑے کھاتے کھاتے بےہوش ہو گئے لیکن حکمران ِوقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔ بیہوشی کی حالت میں انہیں رہا کردیا گیا۔ انہوں نے نماز ظہر ادا کی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور کوڑے مارنےوالے جلادوں کو معاف کردیا لیکن انہوں نے معاف نہیں کیا تو ان ”درباری علمائ” کو جنہوں نے حکمران وقت کی خوشنودی کیلئے فرمائشی فتوے دئے تھے ۔ لوگ انہیں بھولے نہیں۔ ایسے فتوے دیکر علما شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پھر یہی نہیں اگر ہم آج مغربی دنیا سے پیچھے ہیں تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں ان بعض ناسمجھ جاہل مولانا حضرات کا ہاتھ ضرور ہے ، جیسے عثمانی دور میں سب سے پہلے چھاپہ خانہ یعنی پرنٹنگ پریس کو حرام قرار دیا گیا۔اس وقت کہا جاتا تھا کہ یہ شیطانی مشین ہے، اسی بنیاد پر پرنٹنگ پریس کو 5سو سال تک مسلم ممالک میں داخل نہ ہونے دیاگیا ،ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں سے کام چلایا جاتا رہا کہ اس سے اسلامی آرٹ خطاطی اور کتابت کو نقصان نہ پہنچے۔ جب بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کیا تو اس وقت علمائے کرام کے درمیان مناظرہ ہو رہا تھا کہ ”کوا” حرام ہے یا مکروہ۔ پھر اسلامی ممالک میں ”گھڑیال” کو لایا گیا تو کہا گیا کہ یہ سورج اور چاند کے متبادل کوئی چیز آگئی ہے، اس لئے اسے بدعت قرار دیا گیا اور ولی عہد نے اسے چوراہے میں رکھ کر توڑ ڈالا تھا مگر آج ہر عالم دین نے یہ گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ پھر ریڈیو آیا تو علما نے اس پر بھی فتویٰ دیا تھا کہا کہ یہ شیطانی آواز ہے، اس کا سننا حرام ہے، اس طرح جب ٹی وی آیا تو ایک مذہبی جماعت نے اسے سرعام توڑ کر ثواب بھی حاصل کیا ۔ حدتو یہ ہے کہ پینے والی کافی تک کو بھی کافر قرار دیا گیاتھا ، ترکی میں کافی پر فسادات ہوئے بعد میں پتہ چلا کہ کافی تو مغرب سے آتی ہی نہیں یہ تو افریقن مسلم ممالک سے آتی ہے۔ پھر پینٹ کوٹ پہننے، انگریزی سٹائل کے بال کٹوانے اور لاﺅڈ سپیکر تک پر اعتراضات اور فتوی دیے گئے کہا جاتا ہے کہ 1857کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے حق میں فتوے دیے گئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ہی مدرسوں کو وظیفے دیکر سرکاری مولوی پیدا کیے بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جتنے بھی فرقے بنے ہیں وہ انگریز دور میں ہی بنے اور سارے انگریز کے فنڈز سے بنے اور چلے۔ آپ ان سے جس دور میں مرضی اور جیسا مرضی فتوی لے لیں۔ ابھی حالیہ تاریخ بھی آپ پڑھ لیں کہ ہمارے چند علمائے کرام حکومت وقت کےلئے راستے نکالتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ احتجاج کو غیر شرعی قرار دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی وہ اپوزیشن کی کسی کارروائی کو ۔جنرل مشرف کے دور میں بےنظیر بھٹو کو عوام انہیں وزیر اعظم بننا چاہتی تھیں تو انہی روکنے کےلئے درباری علما سے فتوی لیا گیا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے ۔ بہرحال ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے عوام اور علمائے کرام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہوگئی تھی، عوام کا علما سے اعتماد ختم ہو گیا تھا جس کا ہمیں مذہبی طور پر نقصان ہوا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہم ٹیکنالوجی کے دشمن کیوں ہیں؟ جو بھی نئی ایجاد سامنے آتی ہے اس کےخلاف فتوی کیوں آجاتا ہے ۔لگتا یہی ہے کہ فتویٰ بھی ایک ہتھیار ہے۔ جسے ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر فتویٰ لگانا ہے تو فون ہیکروں پر، منی لانڈرنگ فارن فنڈنگ کرپشن ، کمیشن لینے پر لگایا کریں ۔ جن ممالک میں فتویٰ دینے والے موجود ہوتے ہیں وہاں کے ممالک ترقی میں پیچھے اور جگ ہنسائی میں سب سے آگے ہوتے ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے