سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کے فیصلہ نے سیاستدانوں ، اداروں اور عوام کو عجب صورتحال سے دوچار کر دیا ۔خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6کے تحت غداری کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ۔تین ججز کی خصوصی عدالت نے 2.1کی اکثریت سے فیصلہ سنایا ۔دو دن بعد اسی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ بھی آ گیا جس نے پہلے فیصلے کے رد عمل میں بے پناہ اضافہ کر دیا ۔اس فیصلے پر بہت سے تبصرے اور رد عمل آ رہے ہیں ۔سزائے موت کے اس فیصلہ سے دو طرح کے موقف سامنے آئے ایک حمایت اور دوسرا مخالفت ۔حمایت کرنے والوں میں اپوزیشن اور سب سے زیادہ مسلم لیگ ن اور مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں ۔ مختصر فیصلے کے کچھ دیر بعد ہی آئی ایس پی آر کے میجر جنرل آصف غفور کے دو سطروں بیان نے ملک میں زیر بحث موضوع کو زیادہ قوت بخش دی کہ سابق صدر اور پاک آرمی چیف غدار نہیں ۔انہوں نے 40سال عوام اور ملک کی خاطر اپنی زندگی جنگوں میں گزاری ،فیصلہ پر فوج میں غم وغصہ اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ملک بھر میںاب مختصر فیصلے سے بڑھ کر تفصیلی فیصلہ زیر بحث ہے۔ملک کے ماہرین قانون ،ریٹائرڈ جسٹس اور تجزیہ کاروں حتیٰ کہ خصوصی عدالت کے جسٹس شاہد کریم جو تین رکنی بنچ کا حصہ تھے اور سزائے موت کا حکم بھی ان کے فیصلے میں تھا انہوں نے بھی اپنے ساتھی جسٹس وقار کے فیصلے میں سزائے موت کو مثالی بنانے اور طریقہ کار کی مخالفت کی ۔تفصیلی فیصلے میں حکومت پر زور دیا گیا کہ پرویز مشرف کو گرفتار کر کے سزائے موت پر عملدرآمد کرایا جائے اور اگر سابق صدر کا انتقال بھی ہو جائے تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک میں لایا اور تین دن تک لٹکایا جائے ۔اپوزیشن کے ترجمان بھی مختصر فیصلے کی حد تک قانون کی بالا دستی اور جمہوریت کو خراج تحسین پیش کرتے نظر آئے لیکن تفصیلی فیصلہ آنے پر وہ بھی خاموش ہو گئے ۔موجودہ پاکستانی اٹارنی جنرل انور منصور خان نے تفصیلی فیصلہ پر اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے جج کے خلاف آرٹیکل209کے تحت کاروائی ہونی چاہیے کیونکہ ان کے متعصبانہ اور دشمنی پر مبنی فیصلے نے ملک کے اندر اداروںمیں سنگین ٹکرائو کی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔یہ فیصلہ غیر آئینی ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ملک میں عدم استحکام اور انارکی پیدا کرنے کی کسی کو ہر گز کوئی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ فیصلہ ملک میں انارکی پھیلانے کی ایک کوشش ہے ۔ حکومتی ٹیم کے مطابق ڈی چوک پر تین دن کیلئے لٹکانے کی بات قانون کی ساری حدیں پھلانگ کر کی گئی ہے ۔اگر منصف کے دل میں تعصب اور جذبہ انتقام چنگاریاں لئے فیصلہ کریں تو انصاف کا خون ہو جاتا ہے ۔اس طرح کی آگ سے کھیلنے والے شوقین یہ نہیں سوچ رہے کہ وہ اس آگ میں خود بھی جل سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی قوم اس حالت میں نہیں کہ وہ ایسی صورتحال کی متحمل ہو ۔جس طرح جسٹس وقار نے تفصیلی فیصلہ میں الفاظ استعمال کئے کیا ہمارا دستور یہی کچھ کہتا ہے۔تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی مختصر پریس کانفرنس میں دن بھر کی چہ میگوئیاں ،خدشات ،تحفظات اور جائزوں کو یکسر ختم کر دیا اور بڑے مثبت انداز میں کہا کہ فوج بعد میں ملک پہلے لیکن فوج اپنی دھرتی اور اپنے ادارے کا تحفظ کرنا جانتی ہے۔ملک دشمن عناصر جو ملک کی داخلی صورتحال سنگین کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمارا دشمن ملک اس سے فائدہ اٹھاسکے ۔ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اس سے بے خبر ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی استحکام کو قائم رکھنے کیلئے پاکستان کے اداروں نے قربانیاں دی ہیں ہم اسے ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔ فیصلے کے الفاظ اخلاقی اور انسانی اقدار کے منافی ہیں ۔جو خدشات تحریری اور تفصیلی فیصلے سے سامنے آئے ہیں ہم اپنے ادارے کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور فوج سمجھتی ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر کون سے عناصر کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کو بھرپور جواب دیں گے ۔ان کا اظہار اپنی جگہ لیکن ایک بہادر جرنیل کو سزائے موت اور پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کی بات کرنے پر پورا ملک یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے اداروں کا اعتماد کمزور کرنے کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں ۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ خصوصی عدالت کے جج کو سزائے موت سنانے کا ضرور اختیار تھا لیکن ان کے طریقہ کار کی قانون میں گنجائش ہی نہیں ۔اس کا جو رد عمل سامنے آیا ہے اس سے سابق صدر کو ملک کے پورے عوام کی طرف سے حمایت حاصل کرنے میں بہت فائدہ ہو گا یہ درست ہے کہ ملک و قوم کیلئے خدمات انجام دینے والے اور وطن کی سلامتی کیلئے محاذ جنگ میں لڑنے والے کسی شخص کو آئین معطل کرنے اور ایمر جنسی لگانے کا اختیار تو نہیں ،معاملہ یہاں شائد غداری کا نہ ہو آئین شکنی کا تو ہے اور غدار کی سزا بھی تو موت ہے لیکن فیصلے میں استعمال کئے گئے الفاظ میں شائستگی کا فقدان اور جذباتیت غالب نظر آتی ہے اور انتقام کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے ۔غدار کا لفظ تو عام شخص کو مشتعل کر دیتا ہے ۔کسی فوجی کیلئے غدار کا لفظ تو ماں کی گالی سے بھی آگے کی بات ہے ۔اس فیصلہ پر سنئیر وکلاء بہت سے سوال اٹھاتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق آرٹیکل 342کے تحت ملزم کا بیان ضروری تھا انہیں دفاع کا موقع نہیں ملا ۔کچھ ماہرین کے نزدیک تو خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ آئین سے ہی متصادم ہے ،کسی ملزم کی غیر موجودگی میں اس کی جائیداد تو ضبط ہو سکتی ہے لیکن اس کی غیر حاضری میں سزا کیسے دی جا سکتی ہے ۔ ہماری عدالتیں تو کیس کو دھیرے دھیرے ہلکی آنچ پر پکانے میں شہرت رکھتی ہیں ۔سنگین غداری کیس بھی چیونٹی کی رفتار سے چلتے چلتے اچانک سرپٹ دوڑنے لگے تو تعجب کا باعث ضرور بنتا ہے ۔کچھ سنئیر وکلاء اس پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اچانک جس سرعت سے مشرف کیس کا فیصلہ سنایا گیا اس کی نسبت اسحاق ڈار ،حسن، حسین اور شریف فیملی کے مقدمات فیصلے تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ۔عدلیہ نے جو فیصلہ دیا ہے تو کیا اس ساری خرابی کا ایک اکیلا شخص ذمہ دار تھا ؟ اس کا ساتھ دینے والے اس کے شریک جرم نہیں تھے ۔ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا تھا تب نظریہ ضرورت کیوں آڑے آیا ،اب کیوں نہیں ؟ 3نومبر2007ء کی ایمر جنسی کو غداری سے تشبیہہ دینا سمجھ سے بالا تر ہے ،مانا کہ جنرل مشرف کا ایمر جنسی لگانے کا اقدام اور ججوں کو نظر بند کرنا غلط تھا لیکن یہ کیسی غداری تھی کہ مہینے کے آخر میں ایمر جنسی شروع ہوتی ہے اور اگلے مہینے کے وسط میں اٹھا لی جاتی ہے ۔یہ غداری کا مقدمہ کس کے ایما پر قائم کیا گیا تھا ،اس کے جو آج خود ملزم سے سزا پا کر مجرم بن چکا ہے ۔اس مقدمہ کا پس منظر صرف اور صرف جنرل مشرف سے انتقام لینا تھا ۔ 2013ء سے پہلے آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی نے جنرل(ر)مشرف کے خلاف ٹرائل کرنے کا کہا تھا مگر ان کے رہنما موقع پا کر ادھر ادھر ہو گئے ۔بعد میں ایک معتبر شخص نے نواز شریف کو بلا کر کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل شروع کیا جائے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے حامی بھر کر اپنا کام شروع کر دیا۔پرویز مشرف کے خلاف اس مقدمے کے اندراج کے وقت جنرل کیانی نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن میاں صاحب نہ مانے ۔انہیں ہر حال میں اپنی کرنے پر آمادہ دیکھ کر کیانی صاحب نے پھر مشورہ دیا کہ صرف پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ درج نہ کریں ان کے ساتھی بھی ان کے اس فعل میں برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ ان کا مقصد تھا کہ سیاستدان بمقابلہ فوج کا تاثر نہ بننے دیا جائے۔جنرل مشرف کے ٹیک اوور کو جسٹس ارشاد حسن خان جو کہ چیف جسٹس تھے تحفظ فراہم کیااور اس صلے میں ریٹائر ہونے پر چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ صلے میں پایا۔جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی اور ان کے اس فیصلے کے بعد اس کی گردان کرتے ہوئے کئی بار جمہوریت اسی نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھائی گئی۔حالیہ فیصلہ کے پس منظر کے ساتھ ملک کے دو اہم ادارے گزشتہ چند دنوں سے ضرور آمنے سامنے آ چکے ہیں اور ہنوز تنائو کی کیفیت برقرار ہے ۔یہ کشیدہ صورتحال کسی طرح بھی ملکی مفاد میں نہیں ۔مختلف اداروں کو آئین کے مطابق ہی کام کرنا چاہیے اور اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔