کالم

فیفا فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کا آغاز

فیفا فٹبال 2022 کی میزبانی قطر کے حصہ میں آئی۔اس ملک کی آبادی تیس لاکھ اور رقبہ گیارہ ہزار مربع کلو میٹر ہے ۔ قطر کو جب فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی دو ہزار دس میں ملی تو اس کے مقابلے میں امریکہ جاپان جنوبی کوریا، آسٹریلیا جیسے ممالک میزبانی کی دوڑ میں شامل تھے ۔ ارادے جب مضبوط ہوں تو سب کچھ ممکن ہو جاتاہے ۔اس ملک کے پاس مالی سورسز تھے ۔ دو ہزار دس سے اس پر کام شروع کر دیا تھا ۔ ٹھیک بارہ سال بعد فیفا ورلڈ فٹ بال کپ کا کل سے شروع ہوچکا ہے ۔ اس بارہ سال میں قطر نے نہ صرف فٹ بال کی ا یئر کنڈیشن آٹھ فٹ بال اسٹیڈیم بیشمار جدید سٹار ہوٹلز بنائے۔ کہا جاتا ہے فارن جیسا ماحول دینے کیلئے شراب کی اجازت بھی دے رکھی ہے ۔ دنیا بھر سے آنے والے پندرہ لاکھ فٹ بال کے شوقین کے تمام انتظامات مکمل کئے ہیں اور میچ کھیلے جارہے ہیں ۔پاکستان کے بنائے گئے فیفا فٹ بال سے یہ ورلڈ کپ کھیلا جا رہا ہے ۔ ہمارے لئے یہ خوشی اور اعزاز ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بارہ سال قبل پاکستان میں بھی فٹ بال کی ٹیم بنا لی جاتی ۔ اگر ایک ایسا ملک جس کے پاس فٹ بال کا گرائنڈ نہیں تھے ہوٹل نہیں تھے اس ملک نے بارہ سال کے عرصے میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ایسا ہم بھی کر سکتے تھے ۔ ہماری مٹی بھی بڑی نم ہے اس پر اگر توجہ دی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پاکستان کی فٹ بال ٹیم اپنا نام روشن کرسکتی تھی ۔ ہمیں چائیے کہ کرکٹ کے ساتھ فٹ بال پر زیادہ زور دیں۔ یاد رہے کرکٹ دنیا میںگیم کے طور پر نہیں جانی جاتی مگر فٹ بال دنیا ساری میں گیم کے طور پر مانی جاتی ہے ۔دنیا ساری میں سب سے سستی سکی پسندیدہ گیم فٹ بال سمجھی جاتی ہے ۔ ایک فٹ بال سے ایک میچ میں بائیس پلیئر کھیلتے ہیں اور نوے منٹ کی کھیل میں ہار جیت کا فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ جب کہ کرکٹ میں کبھی پانچ روز کے بعد ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے، ون ڈے کرکٹ میچ کا فیصلہ اسی روز اور ٹونٹی ٹونٹی کھیل کا فیصلہ چھ سات گھنٹوں میں ہوتا ہے ۔جبکہ کہا جاتا ہے کہ کرکٹ کے ورلڈ کپ کے تمام میچ فکس ہوتے ہیں ۔بکی پیسے لگاتے ہیں ۔جیسے بانوے کا ورلڈ کپ تھا ۔ اس کے آفٹر شاک اب بھی محسوس کے جا سکتے ہیں ۔ لہذا کرکٹ کے بجاے بہتر ہے کہ سکولوں کالجوں میں فٹ بال شروع کیا جائے ۔ ایک بال سے بائیس بچے کھیل سکتے ہیں ۔ اب ہم فیفا ورلڈ کپ قطر میں پلیئر کے نہیں چوکیدار کے شال ہیں ۔ فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کی سیکورٹی ہمیں دی گئی ہے۔اس مد میں ہمیں دو ارب ڈالر ملیں گے ۔اے نہ خوشی کی بات کاش اس میچ میں ہماری بھی فٹ بال کی ٹیم ہوتی۔ قطر نے فٹ بال کا ورلڈ کپ کرانے کا مقصد یہ بتایا کہ وہ اپنے ملک قطر کو سیاحتی ملک بنانا چائتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ اگر ہم اس فیفا ورلڈ کپ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اگلے بیس سال تک یہ لاکھوں نہیں کروڑوں سیاح یہاں آیا کریں گے ۔جس سے اس ملک کا ریونیو مزید بہتر ہو گا ۔ہم سیاحت اور کھیلوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے جو کھلاڑی ورلڈ کپ جیتے ہیں وہ بچارے اپنے شوق کی وجہ اپنے خرچے سے جیتے آ ئے ہیں پاکستان کا نام روشن کرتے آئے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوئی کاوش دکھائی نہیں دیتی ۔فٹ بال کو سکولوں کالجوں میں کھیلنا لازمی قرار دیا جائے ۔پھر دیکھیں پاکستان اس گیم میں کتنا آگے جاتا ہے۔ یہاں کوئی پلاننگ نہیں سوائے پلاننگ دہشت گردی والوں کی دکھائی دیتی ہے ۔ جسکی وجہ سے کرکٹ کی جو فارن ٹیم کرکٹ کھیلنے آتی ہے ۔ اس کوسیکورٹی کی بنا پر یہاں کی ہائی وئے مین روڈ بند کر دی جاتی ہیں ۔جس ہوٹل میں کھلاڑی رہتے ہیں اس ہوٹل کے اردگرد کی تمام سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں ۔جس سے مقامی رہائشی ایک قیدی بن کے رہ جاتے ہیں ہر کوئی اس کو انجائے کرنے کے بجائے پریشان رہتا ہے ۔ کھلاڑی ہو یا عام شہری جب اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں تو ایسے میں وہاں ترقی کے راستے معدود ہو جاتے ہیں ۔اس کا الزام قانون نافذ کرنے والوں کو دیا جاتاہے ۔اسلام آباد شہر کنٹینروں کا شہر بن چکا ہے ۔ ریڈ زون کے داخل ہونے پر بڑے بڑے گیٹ لگ چکے ہیں ۔ تین ہفتوں سے شیر شاہ سوری روڈ ٹریفک کیلئے بند ہے ۔ جس سے عام شہری کی آزادی پامال ہو رہی ہے ۔یہ بتاتے ہیں کہ آئین انہیں جلسے جلوسوں کی اجازت دیتا ہے ۔ مگر آئین ہر شہری کی آزادی کی بات بھی کرتا ہے مگر وہ آزادی انہیں دکھائی نہیں دیتی ۔انصاف دینے والے کہتے ہیں ابھی توکچھ ہوانہیں جب کچھ ہوا تو پھر آنا ۔جبکہ سیانے کہہ گئے ہیں ایسا نہیں ہے ۔ گاﺅں کی لڑکیاں کنویں سے پانی بھرنے سروں پر گھڑے رکھے جا رہی تھی ۔ان میں ایک لڑکی سر پر گھڑا اٹھائے ایسے چل رہی تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کا گھڑا گر کرٹوٹ جائے گا ۔ ایک بابا جی اس لڑکی کو ایسا کرتے دیکھ کر اسے چپت مار ی اور کہا خیال کرو گھڑا نہ گرے ۔ اس پر اس کی سہلیوں نے کہا ہماری اس سہیلی نے کو نسا گھڑا گرا دیا تھا کہ آپ نے اسے مارا ۔ بابا جی نے کہا اگر گھڑا گرا دیتی تو پھر مارنے کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔اب نقصان سے بچ گئے ہیں ۔ لانگ مارچ دھرنے والے اپنے آپ کو سیاست دان کہتے ہیں۔ لیکن لگتے نہیں۔اس لئے کہ سیاست دان عوام کو مشکل سے نکالتے ہیں مشکل میں ڈالتے نہیں سیاست دان تو سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کو ریلیف دلواتے ہیں یہ تو سڑکوں پر آ کر عوام کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔یہ عوام کو کبھی بتاتے ہیں کہ ہم آپ کو آزاد کرانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں ۔کبھی بتاتے ہیں یہ جلد الیکشن کے لئے لانگ مارچ کر رہے ہیں جبکہ حقیت یہ ہے کہ یہ خود آزاد نہیں ۔الیکشن جیت کر بھی اسمبلی سے باہر ہیں ۔ باشعور لوگ کہتے ہیں لیڈروں پہلے خود تو آزاد ہو جاﺅ پھر عوام کی آزادی کی بات کرنا ۔ بجٹ میں سب سے کم رقم صحت تعلیم اور کھیلوں کےلئے یہ رکھتے رہے ہیں ۔لیڈر شپ اچھی ہوتی تو آج فیفا فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستان کی بھی ٹیم کھیل رہی ہوتی ہوتی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے