کالم

فیک نیوز ،اظہار رائے یا بے حسی ؟

خبر ہمیشہ سے معاشرے کی آنکھ اور کان رہی ہے۔ یہی آنکھ سچ دکھاتی ہے اور یہی کان عوام تک درست معلومات پہنچاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم خبر سے فیک نیوز تک آخر کیوں اور کیسے پہنچ گئے؟ یہ سفر محض ٹیکنالوجی کی ترقی کا نتیجہ نہیں بلکہ اجتماعی شعور، صحافتی اقدار اور احتساب کے نظام کی کمزوری کی طویل داستان ہے۔فیک نیوز کی اصطلاح اگرچہ حالیہ برسوں میں زیادہ عام ہوئی، تاہم اس کا عملی وجود نیا نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ غلط معلومات، افواہیں اور پروپیگنڈا ہمیشہ سے طاقت، سیاست اور مفادات کا حصہ رہے ہیں ۔ البتہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس نے اسے غیر معمولی رفتار، وسعت اور اثر پذیری عطا کر دی ہے۔ آج ایک جھوٹی خبر چند منٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور جب تک اس کی تردید سامنے آتی ہے، نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔چار دہائیاں قبل جب ہم نے اخبار نویسی کا آغاز کیا تو خبر مقدس امانت سمجھی جاتی تھی۔ کسی غلط خبر کی اشاعت پورے ادارے اور عملے کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی تھی۔ اگلے دن نمایاں طور پر تردید، وضاحت اور معذرت شائع کی جاتی تھی۔ خبر کی تصدیق، متعلقہ فریق کا مقف اور ادارتی جانچ لازم تھی۔ اس وقت کلک بیٹ یا بریکنگ نیوز کی دوڑ نہیں تھی بلکہ سچ کی تلاش ہی اصل دوڑ سمجھی جاتی تھی۔آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ تعلیمی اور ذہنی شعور بظاہر بڑھا ہے، مگر خبری ذمہ داری کمزور ہوئی ہے۔ بعض ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں تصدیق کو غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا پر یوٹیوبرز اور نام نہاد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے فیک نیوز کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اعلیٰ شخصیات کی جھوٹی وفات کی خبریں، خوف و ہراس پھیلانے والے دعوے اور سنسنی خیز سرخیاں اب معمول بنتی جا رہی ہیں۔
یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے فیک نیوز شائع یا نشر کرنے کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ جواب واضح ہے ریٹنگ، ویوز، کلکس، سیاسی مفادات اور مالی فائدہ۔ بدقسمتی سے اس کھیل میں نقصان صرف سچ کا نہیں بلکہ معاشرتی اعتماد، قومی یکجہتی اور عوامی ذہن سازی کا بھی ہوتا ہے۔ فیک نیوز نہ صرف خوف پھیلاتی ہے بلکہ اصل خبر کو پس منظر میں دھکیل دیتی ہے، یوں حقیقت دب جاتی ہے اور فریب نمایاں ہو جاتا ہے۔کیا فیک نیوز کو اظہارِ رائے کی آزادی کے دائرے میں رکھا جا سکتا ہے؟ اظہارِ رائے کی آزادی کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی حق ہے، مگر یہ آزادی لامحدود نہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک میں آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی لازم ہے۔ امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ریاستوں میں کسی بڑی شخصیت کا انٹرویو یا حساس خبر اس وقت تک شائع نہیں کی جاتی جب تک متعلقہ شخصیت سے اس کی منظوری یا تصدیق نہ ہو جائے۔ یہ عمل آزادی اظہار کی نفی نہیں بلکہ سچ کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں فیک نیوز کے احتساب کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ نہ واضح سزا ہے، نہ مستقل نگرانی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ریاستی ادارے، میڈیا ہاؤسز، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، یا خود ہم بحیثیت صارف؟ حقیقت یہ ہے کہ ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔
فیک نیوز پر قابو پانے کیلئے محض پابندیاں نہیں جامع ضابط اخلاق کی ضرورت ہے جو آزادی اظہار میں رکاوٹ بنے بغیر خبر کی صحت کو یقینی بنائے۔ میڈیا اداروں کے لیے فیکٹ چیکنگ لازمی ہو، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ذمہ دارانہ مواد کی نگرانی کی جائے، اور عوام میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں۔ہمیں اس مسئلے کو محض صحافتی بحران نہیں بلکہ قومی مسئلہ سمجھ کر دیکھنا ہوگا۔ جدید دور میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی جمہوری حق ہے، مگر مہذب قومیں سچ کی بنیاد پر ہی آگے بڑھتی ہیں۔ اگر سچ ہی مشکوک ہو جائے تو آزادی بے معنی رہ جاتی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خبر کو دوبارہ اس کا اصل مقام دیں، فیک نیوز کو معمول سمجھنے کے بجائے اس کے خلاف اجتماعی شعور بیدار کریں، اور سچ کو وہ احترام واپس دلائیں جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مہذب نہیں کہلا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے