پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد میں پاکستان کے نہایت ارفع دانشور، نہایت پڑھے لکھے نقاد ، نہایت فیض رساں استاد ، نہایت مہربان دوست اور نہایت نرم دل انسان ،ظاہر پیر کے قاضی اورشہر اولیا کی شان پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد کو یاد کرنے کےلئے 31جنوری 2023 کو ادراہ زبان و ادبیات اردو ، پنجاب یونیورسٹی اور شعبہ اردو سرگودھا یونیورسٹی کے تعاون و اشتراک سے ایک قومی ادبی سیمی نار کا اہتمام کیا گیا تھا ۔پاکستان بھر سے قاضی عابد سے محبت کرنے والوں نے اس قومی ادبی سیمینار میں شرکت کی۔اس سیمینار میں شرکت کرنے کے لیے قاضی عابد صاحب کی اہلیہ محترمہ اور ان کے فرزند شاہ زیب قاضی خصوصی طور پر ملتان سے تشریف لائے تھے۔سیمینار کے انتظام و انصرام میں پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد نعیم ورک، ڈاکٹر ظہیر عباس ،سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر شاہد نواز اور ڈاکٹر ساجد جاوید جبکہ اسلام آباد سے ڈاکٹر روش ندیم نے بنیادی کردار ادا کیا۔اس سیمینار سے ڈاکٹر نجیب جمال ، ڈاکٹر ضیا الحسن ،ڈاکٹر محمد کامران ، ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی اور مقصود خالق نے لاہور سے آن لائن شرکت کی ،محترمہ ڈاکٹر عقیلہ جاوید صاحبہ اور ڈاکٹر حماد رسول ، ڈاکٹر خرم شہزاد نے ملتان سے شرکت کی۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈاکٹر لیاقت علی اور ڈاکٹر مظہر عباس شریک ہوئے ۔ڈاکٹر رخسانہ بلوچ فیصل آباد سے،ڈاکٹر یوسف نون رحیم یار خان سے۔ اسلام آباد سے میرے علاہ ڈاکٹر ساجد محمود اعوان ، ڈاکٹر رفعت اقبال ، ڈاکٹر عابد سیال ،ڈاکٹر صنوبر الطاف نے قاضی عابد کی خدمات اور مفاخر پر گفتگو کی۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر اگر متحد اور منظم ہوتے تو بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایک عاقبت نااندیش وائس چانسلر کی طرف سے ایک پرامن استاد کو ذہنی اذیت دینے کے جرم کے خلاف اجتماعی بغاوت کر دیتے اور کم از کم مطالبہ یہ کرتے کہ نہ صرف بد زبان وائس چانسلر کو برطرف کرکے سزا دی جائے ، بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ آئیندہ کسی یونیورسٹی میں ذہنی طور پر غیر موزوں اور نیم پاگل افراد کو وائس چانسلر نہیں بنایا جائے گا۔لیکن یہ پاکستان ہے ،یہاں ہر واقعہ چونکہ دوسروں کے ساتھ پیش آتا ہے ،تو ہمارے لیے وہ صرف ایک خبر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔تا آنکہ خبر پڑھ کر کڑھنے والا خود ایک خبر نہ بن جائے۔یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کسی ملک کے ارفع دماغ اور حقیقی راہنما ہوتے ہیں ۔انہیں اپنی تکریم کے لیے یک جا اور یک سو ہونا ہی پڑے گا۔ کتابوں سے عشق کرنے اور ترسیل علم میں منہمک رہنے والا پروفیسر ،جس نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا نہ کبھی دل توڑا ہے ،پھر بھی قاضی عبدالرحمن عابد کا دل ساتھ نہ نبھا سکا۔ قاضی عبدالرحمن عابد کو ستانے والے کبھی باز نہیں ائے۔ لیکن ایک زیرک دانشور کی طرح اسے علم تھا کہ ؛ہوا میں اڑنے والے سنگ ریزوں سے خود ہی بچنا پڑتا ہے ۔ قاضی عابد ایک دلاور آدمی تھے،بہادر تھے ،پر ایک بات سچ کہوں، کئی بار انہوں نے اپنی تلوار کی زد میں آئے دشمن چھوڑ دئیے ،وار روک لیا۔کئی بار تاک کر تیر مارنے والے نے تیر چلا دیا اور انہوں نے ایک طرف ہو کر وار خالی دیا اور بچ کر مسکرا دئیے اور ٹھیٹ سرائیکی میں اس کے ناقص نشانے کا مذاق اڑایا۔کئی بار دوست حیران ہوتے کہ اتنا بڑا ظرف ۔ یہ جانتے ہوئے کہ جنگ میں صرف دو راستے ہوتے ہیں ، یا مار دو یا مر جاو ، لیکن آپ نے ہمیشہ تیسرا رستہ اختیار کیا یعنی چلو چھوڑو، چلو جانے دو ، چلو جینے دو۔ہماری یونیورسٹیاں اور وہاں کا اندرونی ماحول اپنی کثافت کے عروج پر ہے ۔ایسے ماحول میں کسی بھلے آدمی کا بچ رہنا یا بچ نکلنا مشکل ہے۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ ایسی بے وقت اور ناگہانی موت کا کوئی نہ کوئی قاتل تو ضرور ہوتا ہے ۔پر ایسے قتل کے کیس قدرت اپنی ہی عدالت میں چلاتی اور فیصلے کرتی ہے ۔ گزشتہ چند روز سے وہ بے حد اداس اور پریشان نظر آتے تھے ۔اگرچہ کتابیں انہیں گھیرے رکھتیں ، ان کے ہجوم میں انہیں راحت اور آسودگی ملتی ۔پھر بھی درد ،اگر ہو اور اسے دور نہ کیا جاسکے ،تو وہ کبھی کبھی اپنی حد پار کر جاتا ہے ۔بس اسی مقام سے بچنا چاہئیے۔
بدقسمتی سے ہماری جامعات نے ریاستوں اور راجواڑوں کی صورت اختیار کر رکھی ہے ۔جہاں ممکنہ طور پر نالائق و ناہنجار راجے مہاراجے اپنے چرمی سکے چلاتے اور عام رعایا کے دل جلاتے پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں جتنی جہالت اعلی تعلیم کے منتظمین کے دماغوں میں پائی جاتی ہے ،اتنی تو شائد ایجاد بھی نہ ہوئی ہو ۔یہ کون اور کیسے منتظمین ہوتے ہیں جن پر لوگ دبا ڈال کر زبردستی فیصلے کروا لیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی ، ان کے لیے خود اپنے ہی جسم کا دبا برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کجا کہ وہ کان میں کی گئی کسی ٹیلی فونک سرگوشی کا دبا برداشت کر سکیں۔یونیورسٹیوں جیسے اعلی تعلیمی اداروں کو ادنی درجے کے لوگوں کی صوابدید کے حوالے کرنا بجائے خود ایک جرم ہے اور ، بہرحال ریاست کو اب اعانت جرم سے باز آ جانا چاہئیے ۔ایک پروفیسر کو شدید ذہنی دبا میں مبتلا کر کے مار دیا گیا ۔یہ کوئی معمولی جرم بہر حال نہیں ۔اب یہ مرنے والے کا نہیں ، اس معاشرے کا مسلہ ہے ،جس نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اعلی تعلیمی ادارے ادنی فیصلوں اور کمتر منتظمین کے ذریعے چلانے ہیں یا پھر عدل کی بنیاد پر ۔
(جاری ہے)
کالم
قاضی عابد قومی علمی و ادبی سیمینار
- by Daily Pakistan
- فروری 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1637 Views
- 2 سال ago