کائنات کے ہر گوشے میں یہی قانون کارفرما ہے، دنیا کی تاریخ، انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال، معاشرتی تعلقات اور ذاتی زندگی کے تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ انسان کا ہر عمل کسی نہ کسی ردِعمل کو جنم دیتا ہے۔ کبھی یہ ردعمل فوری ملتا ہے اور کبھی وقت لیتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے اعمال کے نتائج سے کبھی نہیں بچ سکتا۔انسان فطرتا خوشی، عزت، سکون اور رزق کی جستجو کرتا ہے۔ یہ وہ مقاصدہیں جو ہر دور، ہر زمانے اور ہر معاشرے میں انسانی سوچ اور کوشش کا مرکز رہے ہیں لیکن ان کے حصول کا طریقہ ہر فرد کے رویے، کردار اور فکر سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے مفکرین، صوفیا اور ماہرینِ نفسیات نے اعمال کے اثرات پر زور دیا۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کو عزت ملے تو وہ دوسروں کو عزت دے، اگر وہ رزق میں برکت چاہتا ہے تو دوسروں پر خرچ کرے، اگر خوش رہنا چاہتا ہے تو دوسروں کو خوش کرے اور اگر سکون چاہتا ہے تو دوسروں کو تکلیف دینے سے بچے۔ یہ اصول محض مذہبی تعلیمات میں ہی نہیں بلکہ معاشرتی علوم اور انسانی نفسیات کے مطالعے میں بھی ملتا ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے دوسروں کو عزت دی، ان کے ساتھ انصاف کیا، علم بانٹا، خوشی اور سکون کو دوسروں کے ساتھ شیئر کیا، وہی کامیاب ہوئیں اور دنیا پر اپنی چھاپ چھوڑ گئیں جبکہ وہ قومیں جو ظلم، خود غرضی اور ناانصافی پر قائم رہیں، وہ زیادہ دیر تک اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ قانونِ فطرت ہمیشہ انصاف پر قائم رہتا ہے۔ فطرت کے قوانین کو کوئی انسان یا کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی۔ یہی قوانین اعمال کے ردِعمل میں کارفرما ہیں۔اگر ہم عزت کی مثال لیں تو یہ انسانی معاشرت کا بنیادی ستون ہے۔ عزت صرف دولت یا اقتدار سے حاصل نہیں ہوتی۔ عزت دراصل دوسروں کے دلوں میں جگہ بنانے کا نام ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان دوسروں کو عزت دیتا ہے جو شخص دوسروں کو کمتر سمجھے، ان کی تحقیر کرے، ان کے جذبات کو مجروح کرے، وہ وقتی طور پر دولت یا طاقت کے زور پر نمایاں ہو سکتا ہے لیکن دلوں میں اس کی کوئی عزت نہیں رہتی۔ اس کیبرعکس وہ شخص جو دوسروں کو عزت دیتا ہے، خواہ اس کے پاس دنیاوی وسائل کم ہوں، اس کی عزت بڑھتی جاتی ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جو عزت دیتا ہے، وہی عزت پاتا ہے۔رزق کی مثال بھی بہت اہم ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ رزق صرف دولت یا مال و دولت کا نام ہے۔حقیقت میں رزق ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں صحت، وقت ، سکون اور تعلقات سب شامل ہیں۔ تاریخ اور مذہبی تعلیمات میں یہ اصول ملتا ہے کہ جو شخص دوسروں پر خرچ کرتا ہے، جو دوسروں کے ساتھ اپنا رزق بانٹتا ہے، اس کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ اضافہ صرف دولت کی صورت میں نہیں بلکہ زندگی کی آسانیوں، صحت اور سکون کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ معاشرتی طور پر بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ جو لوگ دوسروں کے کام آتے ہیں، ان کے کاروبار اور تعلقات میں برکت ہوتی ہے۔اسی طرح خوشی ایک ایسی شے ہے جس کی تلاش میں انسان ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے۔ خوشی خریدی نہیں جا سکتی۔ یہ دوسروں کو خوش کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے، ان کی مدد کریں گے، ان کی خوشی میں شریک ہوں گے تو آپ کو بھی خوشی ملے گی۔ ماہرینِ نفسیات کے تجربات اور ریسرچ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور دوسروں کو خوش کرتے ہیں، ان کے اندر خوشی کا احساس زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ دوسروں کو دکھ دیتے ہیں، دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ خود بھی اندرونی طور پر بے سکون اور ناخوش رہتے ہیں۔سکون بھی خوشی سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دولت مند افراد بھی اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس سکون نہیں ہے۔ سکون وہ چیز ہے جو دوسروں کو دکھ نہ دینے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کو تکلیف دے گا، ان کی زندگیوں کو مشکل بنائے گا تو وہ کبھی بھی دل کے سکون کو محسوس نہیں کر سکتا۔ مذہبی تعلیمات بھی یہی درس دیتی ہیں کہ دوسروں کے دکھ دور کرو، ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آ، اس کے نتیجے میں تمہیں سکون ملے گا۔یہ اصول کہ دنیا میں جو کرو گے، وہی پا گے، فطری اور سائنسی اعتبار سے بھی درست ہے۔ نیوٹن کا تیسرا قانون کہتا ہے کہ ہر عمل کا ایک مساوی اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ یہ اصول صرف طبیعیات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے رویوں پر بھی صادق آتا ہے۔ اگر آپ محبت کریں گے تو آپ کو محبت ملے گی، اگر آپ نفرت کریں گے تو نفرت لوٹ کر آئے گی۔ یہ انسانی معاشرت کا غیر تحریری لیکن اٹل قانون ہے۔بعض اوقات یہ سوال اٹھتا ہے کہ بعض برے لوگ بھی دنیا میں کامیاب کیوں نظر آتے ہیں اور بعض نیک لوگ مشکلات میں کیوں گھِر جاتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اعمال کے نتائج ہمیشہ فوری نہیں آتے۔ بعض اوقات نتائج میں تاخیر ہوتی ہے۔ یہ تاخیر دراصل ایک امتحان ہے۔ بظاہر برا انسان کامیاب نظر آتا ہے لیکن اس کی کامیابی عارضی ہوتی ہے اور اس کے نتائج بالآخر منفی ہوتے ہیں۔ اسی طرح نیک انسان کو فوری انعام نہ ملے لیکن وقت کے ساتھ اس کی نیکی کا پھل سامنے آتا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب، فلسفے اور نظریات نے بھی یہی بات کہی ہے۔ ہندو دھرم کا "کرما” کا نظریہ، اسلام کا "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے”کا تصور، عیسائیت کا "جو بو گے وہی کاٹو گے”کا اصول، سب اسی قانون کی مختلف تعبیریں ہیں۔ یہ دراصل انسانی زندگی کا آفاقی اصول ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہے۔آج کی جدید دنیا میں بھی جب ہم سوشل میڈیا، کاروباری تعلقات یا معاشرتی زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہی قانون کارفرما ہے۔ جو ادارے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، صارفین کو عزت دیتے ہیں، وہ ترقی کرتے ہیں جو ادارے صرف نفع خوری پر چلتے ہیں اور دوسروں کی پرواہ نہیں کرتے، وہ وقتی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن طویل المدت میں ناکام ہو جاتے ہیں۔انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا ایک کھیت کی طرح ہے۔ آپ جو بیج بوئیں گے، وہی فصل اگے گی۔ اگر آپ محبت، عزت، خوشی اور سکون کے بیج بوئیں گے تو آپ کو بھی یہی پھل ملے گا لیکن اگر آپ نفرت، تحقیر اور دکھ کے بیج بوئیں گے تو آپ کے سامنے بھی یہی فصل آئے گی۔ وقت کے ساتھ سب کچھ لوٹ کر آتا ہے۔یہ کائنات ایک توازن پر قائم ہے۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ انصاف کرینگے تو کائنات بھی ہمارے ساتھ انصاف کریگی۔ اگر ہم دوسروں پر ظلم کریں گے تو یہ ظلم واپس ہم تک پہنچے گا۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور یہی زندگی کا سب سے بڑا سبق۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اس بات کو یاد رکھے کہ اس کا ہر عمل ایک دن اس کے سامنے آئے گا۔