وفاقی محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیل صدر پاکستان کے پاس جاتی ہے جسے سنتے لیگل کنسلٹنٹ آف صدر پاکستان ہیں لیکن بعض اوقات صدر پاکستان خود بھی ان اپیلوں کو لاء افسران کے ساتھ سنتے رہے ہیں۔ جیسے ماضی میں سابق صدر پاکستان عارف علوی صاحب اکثر اپیلیں یہ خود بھی سنا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ کوئی جج یا عدالت نہیں ہوتی یا کہلاتی ۔ موجودہ لیگل کنسلٹنٹ سے قبل اس عہدے پر سابق چیف جسٹس پنجاب سید زاہد حسین صاحب پانچ سال یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ کے آخری تین ماہ میں راقم کو بھی آپ کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ لیگل قومی محتسب کے کام کرنے کا موقع ملا ۔جسٹس زاہد صاحب بڑے محنتی شفیق باس اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں ۔آپ نے اس عہدے پر کبھی بھی اپنے آپ کو جج نہیں سمجھا تھا ۔سب کی عزت کیا کرتے تھے۔خوش اخلاقی سے پیش آتے آپ اپیلیں خود سنتے تھے۔ آپ کیساتھ محکمے کے لا ء افسران اور ان کا پی اے ساتھ بیٹھتا، وکلا اور ان کے کلانٹ سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو جج نہیں سمجھا اور نہ ہی اسے کمرہ عدالت والا ماحول رکھا ۔ آرام سے اپیل کو سنتے اور اسی وقت فیصلہ سنا دیا کرتے تھے مگر اب جو کچھ سننے میں آ رہا ہے مجھے اس پر یقین نہیں کہ موجودہ لیگل کنسلٹ صاحب وخری ٹائپ کے کیوں ہیں ۔ کہا جاتا ہے انہوں نے اپنے آپ کو جج اور کمرے کو کمرہ عدالت بنا رکھا ہے ۔کہا جاتا ہے موجودہ لیکل کنسلٹنٹ عرفان قادر اپیل کو سنتے وقت اکثر وکلا کو اس دوران بے توقیر ایسے ہی کرتے ہیں جیسے عدلیہ کے چند گنتی کے ججز ماضی میں کیا کرتے تھے۔ وکلا کا انکی نیم پلیٹ کو پڑھ کر کہنا ہے کہ یہ صدر پاکستان کو کیا قانونی مشورے دیتے ہونگے جنھیں خود اپنا پتہ نہیں کہ وہ نیم پلیٹ میں جسٹس لکھ سکتے ہیں یا نہیں مگر پھر بھی جسٹس لکھ رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ عرفان قادر لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں لیکن کنفرم نہیں ہوئے تھے ریٹائر نہیں ہوئے ۔ لہذٰا جسٹس لکھ نہیں سکتے۔ وکلا کو ان پراعتراض ہے کہ ان کے آفس کی نیم پلیٹ پر انگریزی میں انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جسٹس کیوں لکھ رکھا ہے۔جب کہ قانون انہیں یہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔مجھے یہ سن کر یقین نہیں آیا۔ لیکن یقین دلانے کے لئے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عمار سحری مجھے ساتھ دکھانے لے گئے، سوچا چلو اسی بہانے سے پرانے ساتھیوں سے ملاقات بھی ہو جائیگی۔ لیکن پتہ چلا سب جا چکے ہیں اور نئے آچکے ہیں ۔ پھر مجھے سحری نے وہ نیم پلیٹ دیکھائی جس پر وکلا کو اور انہیں بھی اعتراض تھا ۔نیم پلیٹ پر یہ لکھا ہوا تھا Justice (R) Irfan Qadir consultant( legal Affair )to the President ۔ یہ دیکھ کر ان سے ملنے گئے لیکن آفس بند تھا عید کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ اس عہدے پر عرفان قادر صاحب دوسری بار براجمان ہوئے ہیں۔ ملک کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں ۔ لہٰذا مجھے یقین نہیں تھا کہ ایسا انہوں نے لکھ رکھا ہو گا ۔ نیم پلیٹ دیکھ کر دل پیتی پیتی ہوگیا۔ایڈووکیٹ عمار سحری نے اپنے کیس کے بارے میں بتایا کہ میں اپنا کیس قومی محتسب کے ادارے سے جیت چکا ہوں مگر اس کیس کی مخالف پارٹی نے اس کی اپیل صدر پاکستان کو کر دی پھر کیا تھا اس اپیل میں مجھے عرفان قادر صاحب کے سامنے پیش ہونا پڑا ۔کہا عرفان قادر کے نام کی تختی دیکھ کر اور اس اپیل پر عرفان قادر نے جو حکم صادر فرمارکھا تھا اسے پڑھ کر میرے اندر ان سے قانونی اختلاف جنم لے چکا تھا۔ایڈووکیٹ عمار سحری سپریم کورٹ بار کے ٹی ٹاک کارنر پر آئے تو ہمیں اس کیس کے بارے میں تفصیل سے بتایا بھی۔ یہاں بتاتا چلو جب سے عرفان قادر نے اپنا یہ عہدہ سنبھالا مبارک باد دینے میں بھی گیا تھا لیکن پہلے سے بدلے بدلے لگے اس کے بعد نہ ملاقات کی اور نہ بات کی۔ وقت گزرتا گیا ان سے منسوب باتیں سن کر ان سے رابطہ منقطع کرنا مناسب سمجھا مگر وکلا سے ان کے بارے میں واقعات سن کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ وکلا کا کہنا ہے جنھیں قانون کا خود یہ پتہ نہیں کہ یہ اپنے نام کے ساتھ جسٹس لکھ سکتے ہیں یا نہیں، یہ جناب صدر پاکستان کو لیگل مشورے کیا دیتے ہونگے۔ وکلا نے بتایا کہ یہ کیس سنتے وقت اپنے آپ کو سپریم کورٹ کا جج سمجھ کر اپیلوں کی سماعت کرتے ہیں ۔ماضی کے ناقابل برداشت ججز جیسا رویہ اب جناب نے خود اپنا رکھا ہے۔کہا جاتا ہے جو ججز وکلا کو بے توقیر کرنے کی شہرت رکھتے تھے اب ویسی ہی عادات ان کے اندر پکی ہو چکی ہیں اور وکلا کو بیجا بے توقیر کرتے رہتے ہیں۔اب جب کہ خود ہائی کورٹ کے جج یہ رہے ضرور ہیں مگر کنفرم ہونے سے پہلے انہیں فارغ کر دیا تھا۔ نکالتے وقت بتایا بھی تھا کہ ایسے ججز اپنے نام کیساتھ جج نہیں لکھا کریں گے۔لہذا یہ قانون کے مطابق جسٹس کہلوا اور لکھ نہیں سکتے مگر کہا جاتا ہے اب تک یہ اپنے آپ کو جسٹس لکھ بھی رہے ہیں اور اپیل سنتے وقت جج سمجھ بھی رہے ہیں اور آفس کے باہر نام کی بڑی تختی پر جسٹس لکھ بھی رکھا ہے۔ میری ان سے شناسائی تھی۔ایک کیس کے حوالے سے ان پر کالم بھی لکھ چکا ہوں۔معاف کرنا یہ طے ہے کہ میں مردم شناس نہیں ہوں۔اب جن وکلا کو کیسوں میں ان سے بطور لیگل کنسلٹنٹ کے واسطہ پڑا ہے وہ انکے رویوں سے سخت ناراض ہیں ۔ میرے پیارے دوست عمار سحری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بھی ان وکلا میں سے ایک ہیں۔ انہیں حال میں ایک اپیل میں ان سے سامنا ہوا ہے۔ ان کیساتھ بھی وہی ہوا جو ساتھی وکلا کے ساتھ ہوتا رہاہے سحری نے بتایا جب اس اپیل میں پیش ہوا تو جناب نے کہا میرے آڈر پر آپ نے عمل کیوں نہیں کیا ۔ وکیل نے کیس کی تیاری کے ساتھ انھیں آئینہ دکھانے کی بھی تیاری پہلے سے کر رکھی تھی اور اسکے ساتھ حوصلہ ان کے ساتھیوں کا بھی تھا۔جن کو بے عزت جناب کر چکے تھے لہذا وکیل سحری نے کہا جناب یہ آڈر ہی آپ کا غلط ہے۔ اسے پہلے درست کریں۔ یہ سن کر گرجدار آواز میں کہا میں آپکے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتا ہوں۔ وکیل نے کہا اس کیس کا آڈر آپ نے غلط لکھ رکھا ہے اور آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ توہینِ عدالت کا نوٹس مجھے آپ دے سکتے ہیں۔اس لیے کہ آپ ایسی پاور نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ کوئی عدالت ہے اور نہ ہی آپ جج ۔یہ سنتے ہی کہا آپ مجھ سے آفس میں ملیں ۔سحری نے کہا میرے پاس آپ سے ملنے کے لیے کوئی ٹائم نہیں ہے۔ آپ اپنا فیصلہ لکھیں اور یہ کہہ کر سپریم کورٹ بار کے ٹی ٹاک کارنر میں آ گئے پھر جو کچھ وہاں سنا کر آئے تھے وہ ہمیں بھی بتایا۔پھر کیا تھا جو انہیں جانتے تھے انہوں نے بھی ان کی کہانیاں سنائیں۔ اگر وہ سارے واقعات لکھ دوں تو کتاب بن جائے۔ مجھے سن کر اور انکے رویے سے دکھ ہوا اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شائد کہ ان کے دل میں اتر جائے میری بات اور یہ اپنے معاملات درست کر لیں۔ یہ سچ ہے عزت دینے سے ہی عزت ملتی ہے۔مجھے ان لوگوں کی توجہ شرمندہ کرتی ہے جن پر میں نے کبھی کوئی احسان نہیں کیا اور ان لوگوں کی ناشکری مجھے تکلیف دیتی ہے جن کے لئے میں نے اپنی انگلیوں کو شمع کی طرح جلایا۔ قابل نفرت ہیں وہ لوگ جو ہوتے کچھ ہیں، نظر آتے کچھ ہیں ۔ تکبر چاہئے عہدے کا ہو طاقت کا ہو دولت کا ہو، حسن کا ہو، علم کا ہو حسب نسب کا ہو انسان کو رسواء کر کے چھوڑتا ہے ۔عاجزی اختیار کریں کیونکہ انسان کی اکڑ خدا کی پکڑ پر ختم ہو جاتی ہے۔