کالم

قانون کی لکیر اور جمہوریت کی روح

گزشتہ چند روز سے ملک کے سیاسی، عدالتی اور صحافتی حلقوں میں قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو برقرار رکھا ہے۔ جس کے تحت ایسی جماعت، جو انتخابی عمل میں بطور رجسٹرڈ سیاسی فریق شامل نہ ہو سکی ہو، اسے مخصوص نشستوں کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس فیصلے نے جہاں ایک آئینی ابہام کو واضح کیا، وہیں سیاسی میدان میں ایک نئی کشمکش کو بھی جنم دیا ہے۔آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 51 کے تحت خواتین کیلئے 60 اور اقلیتوں کیلئے 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں، جنہیں سیاسی جماعتوں کو عام نشستوں پر حاصل کردہ کامیابی کے تناسب سے دیا جاتا ہے۔ ان نشستوں کیلئے ہر جماعت انتخابات سے قبل ایک ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرواتی ہے۔ یہی وہ قانونی نکتہ ہے جسے بنیاد بنا کر عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ آزاد امیدواروں کے پیچھے کوئی قانونی طور پر تسلیم شدہ جماعت نہیں، اور ایسی کوئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کروائی گئی، اس لیے مخصوص نشستوں پر ان کا کوئی دعویٰ نہیں بنتا۔قانونی اعتبار سے یہ فیصلہ ایک واضح آئینی تشریح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض آئینی لفظیات سے جمہوریت کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ کیا اس فیصلے کے سیاسی مضمرات کو نظر انداز کرنا ممکن ہے؟ کروڑوں ووٹ، درجنوں کامیاب امیدوار، اور ایک غیر رسمی مگر طاقتور سیاسی بیانیہ رکھنے والی قوت اگر مخصوص نشستوں سے یکسر محروم رہ جائے، تو یہ صرف قانونی پابندی ہے یا جمہوری نمائندگی پر ایک سوالیہ نشان؟
یہ حقیقت ہے کہ عدالت آئین کی تشریح کرتی ہے، سیاسی فیصلے نہیں دیتی۔ مگر جب ایک فیصلہ پارلیمانی طاقت کے توازن کو اس حد تک متاثر کرے کہ ووٹ کی حرمت زیرِ بحث آ جائے، تو یہ صرف عدالت نہیں، پورے نظام کا امتحان بن جاتا ہے۔ قانون کہتا ہے جس جماعت نے فہرست جمع نہ کروائی ہو، وہ موجود ہی نہیں۔ مگر عوامی شعور کہتا ہے کہ جس جماعت کو اکثریتی ووٹ ملے، وہ سب سے نمایاں موجودگی رکھتی ہے۔ہمارے ہاں ایک المیہ مسلسل دہرایا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین کو محض اپنے مفادات کے ترازوں میں تولتی ہیں۔ جب عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے، تو وہ قانون کی بالادستی کی قائل ہو جاتی ہیں؛ اور جب وہی قانون ان کی راہ میں رکاوٹ بنے، تو وہ انصاف کو بھی سازش کہنے سے گریز نہیں کرتیں۔حالیہ فیصلے پر بھی ردعمل اسی دو عملی کا آئینہ دار ہے۔
مخصوص نشستوں کا تصور کمزور طبقات کی سیاسی شمولیت کیلئے پیش کیا گیا تھا، لیکن یہ نشستیں اب وفاداریوں کے انعام اور سیاسی اشرافیہ کی تجدیدِ اقتدار کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امیدواروں کا انتخاب کسی شفاف میرٹ پر نہیں بلکہ قیادت کی ذاتی ترجیح پر ہوتا ہے۔ نتیجتاً یہ نشستیں نہ صرف نمائندگی کے مقصد سے دور ہو گئیں، بلکہ جمہوریت کی داخلی کمزوری کا آئینہ بن گئیں۔آج جب مخصوص نشستوں کی تقسیم پر عدالتی مہر ثبت ہو چکی ہے، تو عوام کے ذہنوں میں یہ سوال تیزی سے ابھر رہا ہے کہ کیا ان کے ووٹ کی حیثیت محض نمائشی ہے؟ اگر ایک سیاسی قوت میدان میں ہو، رائے عامہ اسکے حق میں ہو، مگر وہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کے توازن سے باہر رہے، تو یہ نظام خود اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے ۔اب وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن ایک نئے مکالمے کا آغاز کریں۔ نہ صرف مخصوص نشستوں کے نظام پر نظرثانی کی جائے، بلکہ داخلی جمہوریت کو لازمی قرار دیا جائے۔ ایسی جماعتیں جو صرف انتخابات سے دو ماہ قبل متحرک ہوں، انہیں مخصوص نشستوں کا حصہ دار بنانا انصاف نہیں۔ شفافیت، قانون اور عوامی مینڈیٹ کو ایک ہی راستے پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عدلیہ نے قانون کی تشریح کر دی، مگر اب سیاست دانوں پر فرض ہے کہ وہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کریں۔ اگر وہ آج بھی اقتدار کی باریاں بانٹنے میں مصروف رہے، تو کل ایک اور بحران، ایک اور عدالت، اور ایک اور سوال ان کے دروازے پر ہو گا۔ یہ فیصلہ صرف قانون کا امتحان نہیں، سیاست کی سنجیدگی اور جمہوریت کی بلوغت کا پیمانہ ہے۔ اور بدقسمتی سے، ہم ایک بار پھر اس پیمانے پر کمزور ثابت ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے