گزشتہ سے پیوستہ
سیرو فی الارض کے مصنف اللہ بخش کلیار کا کہنا ہے کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان عالی شان ہے:جب آخری زمانہ قریب ہوگا، تو مومن کا خواب جھوٹا نہ ہوگا۔ مسلمان کا خواب نبوت کے چھیا لیس اجزا میں سے ایک جز ہوتا ہے۔ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں۔ نیک خواب اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری ہوتی ہے۔ دوسرا خواب شیطان کی طرف سے تکلیف ہوتی ہے۔ تیسرا جو دلی خیالات سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اسکا ذکر کسی سے نہ کرے۔ (ترمذی ) سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :”اے لو گو! نبوت کا کوئی جزو سوائے اچھے خوابواں کے باقی نہیں ہے”۔یعنی سلسلہ نبوت منقطع ہوچکا۔ البتہ اجزائے نبوت میں سے ایک جزو مبشرات باقی ہیں۔ مبشرات جو کہ سچے خواب ہیں، یہ بھی نبوت کے جزاء میں سے ایک جز و ہیں،جس کی وضاحت بخاری کی روایت میں ہے۔ مومن کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ یاد رکھیں بلاشبہ سچے خواب حسب تصریح حدیث مبارک اجزائ نبوت ہیں، مگر نبوت ہرگز نہیں۔یقینا نبوت تو خاتم الانبیاءؑپر ختم ہو چکی ہے۔ اس پر کسی کو کسی قسم کا اشکال نہیں ہونا چاہیے۔ ( خواب ہر شخص سے بیان کرنا درست نہیں)اگر اچھا خواب ہے، تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءکرے او ر صرف متقی اور باعمل صاحب علم سے بیان کرے، تاکہ وہ اسکی صحیح شرعی تعبیر بتاسکے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: خواب صرف عالم اور ناصح سے بیان کرو ۔ (تر مذی)ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ خواب کا ذکر صرف عقلمند اور دوست سے کرو۔ جس طرح یوسف علیہ السلام کے خواب متعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کا فرمانا کہ اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ اس معلوم ہوا کہ خواب کا ذکر صرف خیرخواہ اور ہمدرد ناصح سے کیا جائے جو تعبیر کا ماہر ہو۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:خواب اس وقت تک خواب رہتا، جب تک کسی سے بیان نہ کردیا جائے اور سننے والے نے کوئی تعبیر بیان کردی، تو تعبیر کے مطابق ہو جاتاہے۔ (ترمذی) دوسری حدیث میں ہے:خواب پرندے کے پاو¿ں پر ہوتا ہے۔ جب تک تعبیر بیان نہکر دی جائے، اڑتا رہتا ہے۔ جب تعبیر بیان ہو جائے، تو واقع ہو جاتا ہے ۔ (ابوداو¿د)رحمت دو عالم خواب کی تعبیر پوچھنے والے سے پہلے فرمادیتے کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے پھر اسکی تعبیر بیان فرماتے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب (روز قیامت )مجھے حالت بیداری میں دیکھے گا، یا فرمایا:گویا اس نے مجھے حالت بیداری میں دیکھا (کیونکہ) شیطان میری صور ت اختیار نہیں کر سکتا ہے۔ (متفق علیہ)خواب دیکھنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔جب بھی انسان سو رہا ہو، خواب دیکھ سکتا ہے۔ آ پ کا ارشاد گرامی ہے:” سب سے سچے خواب سحر صبح کے ہوتے ہیں”۔ کیونکہ سحر صبح انو ار اور برکات الٰہی کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ انبیاءعلیہ السلام کے خواب الہام من اللہ تعالی ہوتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے عوارض شامل نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب کہ وہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں اور آپ ؓنے اسی طرح عمل کیا۔عام مسلمانوں کے خوابوں میں ہر طرح کا احتمال ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ قابل حجت اور دلیل نہیں ہوتے۔ ان میں طبیعت اور نفسانی خیالات کی آمیزش ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سچے خواب عام امت کے لیے صرف بشارت اور تنبیہ کے علاوہ کوئی مقام نہیں رکھتے۔ یہ خواب نہ خود ان کے لیے کسی معاملہ میں حجت ہیں، نہ دوسروں کے لیے ان خوابوں سے کسی قسم کا شرعی حکم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے خواب دیکھا کہ تین چاند میرے حجرے میں اترے ہیں۔ آپؓ نے اس خواب کی تعبیراپنے والد محترم سے پوچھی، جو کہ خوابوں کی تعبیر کے بہت بڑے ماہر تھے۔ صدیق اکبر ؓنے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا :تم نے اسکی کیا تعبیر کی ہے؟ عرض کی: میں نے یہ تعبیر اپنے طور پر کی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے اولاد پیدا ہوگی۔ یہ سن کر صدیق اکبر خاموش رہے، پھر جب سرور انبیائﷺ اس دنیا تشریف لے گئے اور آپ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرہ مبارک میں اپنے رفیق اعلی سے جا ملے، تو صدیق اکبرؓ نے فرمایا: عائشہؓ تمہارے ایک چاند یہ ہیں اور بقیہ دونوں سے افضل ہیں۔ پھر بعد میں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ بھی اسی حجرے میں قیامت تک آرام فرمارہے ہیں۔ یہ تین چاند تھے، جو انکے حجرے مبارک میں اترے۔ (وصلی اللہ علیہ والہ وسلم)
کالم
قرآن پاک کی روشنی میں خوابوں کی حقیقت(ii)
- by web desk
- جنوری 11, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 215 Views
- 12 مہینے ago