پاکستان کا قومی بجٹ بارہ جون کو پیش ہونے جا رہا ہے،یہ بجٹ ایک ایسی صورتحال میں پیش کیا جا رہا ہے جب ملک کے اقتصادی اشاریے گراوٹ کا شکار ہیں اور آئی کی سخت شرائط کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں،نئے انتخابات کے بعد جس سیاسی و داخلی استحکام کی بات کی جارہی تھی وہ بھی نظر نہیں نظر نہیں آ رہی۔وفاقی حکومت کے اگلے مالی سال کے بجٹ کے بعد تین صوبے سندھ بلوچستان اور پنجاب اپنا اپنا بجٹ پیش کریں گے جبکہ کے پی کے حکومت اپنا بجٹ پہلے ہی پیش کر چکی ہے۔اس وقت عمومی صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی اس خوف کا شکار ہے کہ اس بجٹ میں مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،کیونکہ ہمیشہ عوام کو ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے لوگ سنتے آئے ہیں ۔ حکومتیں مراعات یافتہ طبقوں کی مراعات پر کٹ لگانے کے بجائے عام آدمی کو مشکل فیصلوں کےلئے تیار رہنے کا کہہ دیتی ہیں،اور اب بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ بجٹ اب ایک رسمی کارروائیکی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس میں الفاظ کے گورکھ دھندے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں ہوتا۔ اس صورتحال میں عام آدمی حکومت سے کیا توقع رکھے،اس تاثر کو زائل کرنا حکومت کا کام ہے ۔ایک عام جس کو صبح شام گھر کا کچن چلانے کے لالے پڑے ہوتے ہیں،اس اس سے غرض نہیں ہوتی کہ آئی ایم ایف کیا ہے،بجٹ کیا ہے شرح نمو کیا ہے،اچھے دن کیا ہوتے ہیں۔گزشتہ دو سال سے لوگوں جن مشکلات کا سمان کرنا پڑ رہا ہے،وہ ناقبل بیان ہیں۔کوئی بچوں کو سکولوں سے اٹھوا رہا ہے تو کوئی گھر کے زیور بیچ کر بجلی بل ادا کررہا ہے یا گھر کا کرایہ دے رہا ہے۔ پرائیویٹ نوکریاں کرنے والی عام فیملیاں تو کیا ملازمت پیش لوگ بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ وہ فیملیاں جس میں میاں بیوی بھی ملازم ہیں ان کےلئے بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اب ان کے لئے بھی گھر بنانا، بچوں کو اچھی تعلیم دلوانا یا بڑھاپے کےلئے کچھ بچانے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا ہی ہر کس و ناکس کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔حکومت مہنگائی میں کمی کی بات کر رہی ہے لیکن لوگوں کی قوت خرید بہت کم ہو چکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت محض اعلانات کے ذریعے مہنگائی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اگر ایک طرف تیل کیی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر کے غریب عادمی کے پاو¿ں تلے سے زمین کھینچ لیتی ہے، یہ تاثر بھی عام ہے کہ شہباز حکومت جس طرح اقتدار میں پہنچی ہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ اس پرعوام کوجواب دینے کا کوئی دباو¿ ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانے کےلئے حکومت کو آئی ایم ایف کی جن کٹھن شرائط کا سامنا ہے اس کی موجودگی میں حکومت کے پاس زیادہ معاشی گنجائش بھی نہیں ہے۔عام آدمی سے پوچھا جائے تو وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرے، سرکاری مشینری کا غیر ضروری بوجھ کم کرے، صحت اور تعلیم پر زیادہ رقوم خرچ کرے اور سب سے بڑھ کر وسائل کا زیادہ موثر اور منصفانہ استعمال یقینی بنائے۔ حکومت کو شہریوں کو ریلیف پہنچانے کےلئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومت چند لوگوں کو سب سڈی دے کر پورے ملک یا صوبے کو ریلیف دینے کا تاثر دیتی ہے۔عوام یہ بھی کہتی ہے کہ وفاقی بجٹ بھی حتمی نہیں ہوتا نجانے اس کے بعد کتنے منی بجٹ آئیں گے۔ حکومت کو سچ بولنا چاہیے اور اپنے اعدادوشمار کی ساکھ بہتر بنانی چاہیے۔تاجر برادری اپنی جگہ بے یقینی سے دو چار ہے ،ٹیکسز کے معاملے میںان تحفظات اپنی جگہ سوالیہ نشان ہیں،ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت بہت زیادہ ٹیکس لیتی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ شہریوں کوہر سہولت اپنءپیسے لینا پڑتی ہے، ہسپتالوں، تھانوں ، کچہریوں اور دیگر سرکاری اداروں میں جو رشوت ٹیکس دینا پڑتا ہے اسے بھی تو ختم کیا جانا چاہیے۔ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ حکومت کا اصل مسئلہ آمدن اور اخراجات میں در آنے والا بہت بڑا فرق ہے۔ ملکی معیشت جمود کا شکار ہے، حکومت نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ وسائل کی کمی اور آئی ایم ایف کے دباو¿ کی وجہ سے حکومت اب لوگوں کو روایتی سب سڈی بھی نہیں دے سکتی۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ بڑے بڑے عوامی بہبود کے کام کر سکے۔ ارکان اسمبلی کی طرف سے حکومت پر ان کے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کےلئے بھی دباو¿ ہے۔ اگر ترقیاتی سرگرمیاں شروع نہ ہو سکیں تو اس کا اثر عام لوگوں تک بھی پہنچنے کا امکان ہے۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ان حالات کے باوجود کچھ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرکے اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ہمارے پاس سب سے قیمتی اثاثہ نوجوان نسل ہے جن کو صرف تھوڑے سے عرصے میں فنی مہارتیںسکھا کر ہم انہیں پاو¿ں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔
لوڈشیڈنگ ،کچھ اس کا بھی علاج کیجئے
گرم ترین موسم اور جان لیوا ہیٹ ویو سے نجات تو انسان کے بس کی بات نہیں یہ ایک خدائی امر ہے لیکن کچھ اقدامات انسان کے بس میں ہیں جن کے سہارے ہ ایسے موسموں کا مقابلہ کسی حد تک ضرور کرسکتا ہے،اگر توانئی کے سستے اور آسان ذرائع اسکے بس میں ہوں۔مثلا ً بجلی کی بلا تعطل دستیابی ،لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں سدید سرد موسم میں گیس دستیاب نہیں ہوتی اور شدید گرم موسم میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ وبال بن جاتی ہے۔ہی ٹ ویو کی صورتحال میں آج بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے عذاب نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اورلوگ جگہ جگہ سراپا احتجاج ہیں۔ایک طرف وافر بجلی کے دعوے ہیں تو دوسری طرف پھر لوڈشیڈنگ کے کیا معنی۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بجلی کی طلب میں واضح کمی ہے۔اس کے باوجود شارٹ فال ختم نہیں ہو سکا اور یہ پانچ ہزار سے زائدمیگا واٹ تک پہنچ گیا ہے جس کے باعث لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اس کا سبب سپلائی لائنوںمیں خرابیوں ہے یا بجلی چوری جس کی وجہ سے سنگین مسائل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور خرابیوں کو دور کون کریگا؟ صرف یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکے گاکہ لوڈشیڈنگ صرف ہائی لاسز فیڈرز پر ہو رہی ہے۔ بجلی چوروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاﺅن ہوتا ہے۔ اوور بلنگ کے خلاف سخت احکامات بھی جاری ہوتے ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ اس وقت شدید گرمی میں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل بندش سے شہری پریشان ہیں۔ انہیں دن کو آرام ہے نہ رات کو چین۔گھریلو خواتین ذہنی کرب کا شکار ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چھ سے اٹھارہ گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ کے پی کے میں شہری گرڈ اسٹیشن پردھاوا بول رہے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں تاجروں نے شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی۔ بلوچستان کے کئی علاقوں میں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ پنجاب اور سندھ میں عوام ایک طرف گرمی سے جھلس رہے ہیں تو دوسری طرف بجلی غائب رہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور چوری روکنے کیلئے سخت اقدامات کی ہدایات دے کر عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے تا ہم اس کا فائدہ نہیں ہے جب تک بنیادی خرابیوں کو دور نہ کیا جائے اس کے ساتھ مستقبل میں ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے ورنہ لوڈشیڈنگ شہریوں کے دروازوں پر دستک دیتی رہے گی۔اس پہ ظلم یہ کہ ہر پندرہ دن بعد بجلی کی قیمتوں مین جس طرح بے تحاشہ اضفہ کیا جا رہاہے وہ بھی سوالیہ نشانہ ہے۔
اداریہ
کالم
قومی بجٹ کی آمد آمد اور عوام کی امیدیں
- by web desk
- جون 9, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 802 Views
- 1 سال ago