کالم

قومی تہوار اور ہلڑبازی

سال بھر کے بعد یہ جو ایک دن انگریزوں سے آزادی اور ایک الگ ریاست بننے کا دن ہونے کے ناطے حکومتی سطح کے علاوہ انفرادی سطح پر بھی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اس تقریب میں نوجوانوں کا جزبہ اور اس جشن کو منانے کا انداز بھی منفرد ہوتا ہے موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر بے ہنگم آوازوں کے شور کے ساتھ وہ پاکستان زندہ باد کے نہ صرف نعرے لگاتے ہیں بلکہ موٹرسائیکلوں کی ریس میں کئی زخمی ہو جاتے ہیں لیکن پھر کسی بے بنیاد بات پر ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے بھی نظر آتے ہیں خواتین اور بچیوں کو دیکھ کر بیہودہ اور بدتمیزی کی حرکتیں کرنا آوازیں کسنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کریکرز اور دیگر دھماکے دار آواز کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اخلاق اور قانون حیران ششدر ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہوتے ہیں،بہرحال جشن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے سبز ہلالی پرچم ہر طرف لہراتے جھومتے ہوئے ایک وطن بن جانے کی گواہی دیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں قومی ترانوں کا اپنا رنگ ہوتا ہے ہر طرف خوشیوں کی برکھا برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے اللہ اس ملک کو جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تاقیامت تک قائم رکھے دشمنوں کے عزائم ہمیشہ خاک میں ملتے رہیں ملک ترقی خوشحالی اور اعلی معیار تک رسائی حاصل کرے نئی نسل کو ان قربانیوں کا صحیھح ادراک نہیں جو تاریخ کے اوراک میں تو موجود ہیں لیکن بیان میں کم ہی آتے ہیں ایک نسل تھی جنہوں نے پاکستان بنانے میں جدوجہد کی قربانیا ں دیں گھر بار چھوڑا مہاجر بننے کو ترجیح دی اپنا سب کچھ لٹا کر ایسی دھرتی پر آ بسے جسے پاکستان کا نام دیا گیا 14 اگست کے دن میری والدہ مرحومہ اکثر روتے ہوئے دن گزارتیں کیو نکہ قیام پاکستان کے وقت میرے ننھیال کے کافی لوگ ہندوں اور سکھوں نے شہید کر دیے تھے میری والدہ کے والدین اور بہن بھی انہی میں شامل تھے وہ اکثر کہتیں کہ ان کی لاشیں بے گوروکفن تھیں نہ غسل نہ نماز جنازہ بس لاشوں کے ڈھیر تھے ان لاشوں کو شاید اجتماعی طور پر گڑھے میں دبایاگیا ہوگامیرے خاندان کے کچھ لوگ پاکستان بننے سے پہلے فوج میں بھی تھے اس لیے اکثریت فوجی ٹرکوں میں براستہ واہگہ بارڈر پاکستان پہنچی پھر لوگ مختلف شہروں میں جا کر آباد ہوئے والد کیونکہ سرکاری ملازم تھے۔ اس لیے وہ دہلی سے سرکاری ملازمین کی خصوصی ٹرین سے قیام پاکستان سے چند دن پہلے کراچی پہنچے جہاں انہیں کراچی میں مارٹن روڈ پر گھر ملا اور پھر سیکریٹریٹ میں وزارت تجارت میں ملازمت جاری رہی اور اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے ہمیں تاریخ کا ان چشم دید گواہوں سے علم ہواکتابوں میں جو تاریخ پڑھی وہ اس سے قدرے مختلف تھی جو خون کے آنسو روتے ہوئے والدین نے سنائی ۔ ہم بچپن میں جب 14اگست پر گھر کی دیواروں پر مٹی کے دیے میں سرسوں کا تیل اور روئی کی بتی بنا کر چراغاں کرتے تو میری والدہ روتے ہوئے کہتیں کہ یہ چراغ تو ہم نے اپنے پیاروں کے خون کی قربانی دیکر جلائے ہیں اللہ اس ملک کو ہمیشہ قائم رکھیکئی بچیاں اغوا ہوئیں آبرو ریزی ہوئی مسلمانوں کے گھروں کو ایک منظم منصوبوں کے تحت جلایا گیا نوجوانوں کو کلہاڑیوں خنجروں کے وار سے مارا گیاگھروں کو لوٹا گیا آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن قائد اعظم کے حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے سب کچھ نثار کر کے پاکستان کارخ کیاقبیلے فرقے ذاتیں چھوڑ کر ایک قوم بنے اور پاکستانی کہلائے ۔ اب نہ کوئی سندھی ہے نہ پنجابی نہ پٹھان اور نہ بلوچی ہماری شناخت پاکستا ن سے ہے ہم پاکستانی ہیں ہم پر ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے ہم ملک کاسرمایہ ہیں ہم اس کے محافظ ہیں ملک سلامت تو ہم سلامت۔ عوام کا حق ہے کہ انہیں پرسکون زندگی کے مواقع ملیںسرحدیں محفوظ ہوں جان مال کاتحفظ ہو دن رات پرسکون ہوں زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ سلامت رہے اگر ہم اپنے مفاد کو قوم کے مفاد پر ترجیح دینا سیکھ لیں تو قوم ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گی حقوق کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کی پامالی نفرت محبت اطاعت پیدا کرتی ہے اور نفرت بغاوت ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے سے سماج میں قیام پیدا ہوتا ہے حقوق فرائض کا خیال رکھنے والا معاشرہ ہمیشہ فلاحی ہوتا ہے ۔ ا ب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ملک کو فلاحی ریاست بنا سکے اس کا سیاسی نظام کب تک لوٹ مار کے فلسفے پر عمل پیرا رہے گا امیر سے امیر ہونے والوں کا محاسبہ کرنے کے لئے خوف کیوں ہے قانون کی گرفت کمزور ہے بے یار و مدد کیلئے کیوںنہیں ملک کی دولت کو بے دریغ لوٹنے والوں کی نشان دہی کیوں نہیں ہوتی ان پر قانون کی کڑی گرفت کن وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی وہ تمام کرپٹ لوگ جو ہر طرح سے بدنام ہیں وہ عنان حکومت کیوں سنبھال لیتے ہیں انکا کچھ نہیں بگڑتا واقعات اور حالات انہیں مزید نڈر اور بے باک بنا دیتے ہیں یہ خوف ہے کہیں سورج اپنی کرنوں سے بیزار نہ ہوجائے اور کرنیں اپنے سورج کو چاٹنے کے منصوبے نہ بنا لیں درخت کے سائے میں بیٹھنے والے اس کے سائے کو چرانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں ایسے مٹھی بھر مفاد پرستوں پر گرفت کیوں نہیں ہوتی ان کے ضمیر کیوں سوئے رہتے ہیں یہ مرتبے دبدبے سب عارضی ہیں فرعون کی عاقبت سے انہوں نے آنکھیں موند لیں زندہ انسانوں کو انسان نہ سمجھنے والے انہیں حشرات الارض سمجھنے والے سب کچھ یہیں چھوڑ جائیں گے دولت پر سانپ بننے والوں کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوگا غرور کے ڈھیر پر سوار پولو کھیلنے والے مٹی کا ڈھیر بنے ہوں گے آسمانوں کی طرف منہ اٹھائے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاوں زمین کی گرفت میں ہیں کیا اس ملک کا یہی نصیب ہے کہ قوم حاکم اور محکوموں میں بٹی رہے امیر اور غریب کے گروہوں میں منقسم ہوں سکھی اور دکھی لوگوں کی شناخت بنی رہے بے ترتیبی حسن ترتیب میں کیوں نہیں آتی پچھتر سالوں سے حالات کے تھپیڑوں سے اب لوگ تنگ آچکے ہیں زندگی جس کا خواب قیام پاکستان کے وقت دیکھا تھا اسکی تعبیر حاصل نہیں ہو رہی لوگوں میں مایوسی اور احساس محرومی کے جزبات ابھرتے جا رہے ہیں مداوا کب ہوگا کچھ پتہ نہیں ایسا نظام بن چکا ہے جس میں چند لوگ ملک کو کھوکھلا کر کے باہر چلے جاتے ہیں قرض کی تہوں کو مزید بڑھا کر تماشہ دیکھتے ہیں قوم اور ملک کے نام پر دوسرے ملکوں سے امداد اکٹھی کرتے ہیں اور پھر اسے خود ہی ہڑپ کر جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی صحیح معنوں میں احتساب کرنے والا نہیں غربت کی چکی میں پسنے والی قوم جب بیدار ہوتی ہے تو پھر پتھروں سے بھی پانی جاری ہو جاتا ہے اللہ کی گرفت نشان عبرت بنا دیتی ہے پھر جائے امان نہیں ملتی ملک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت سخت ترین قوانین کی ضرورت ہے جن پر طاقت ور طبقوں کے اثرات نہ ہوں انتظامی مشینری ایسی ہو جو بگڑے ہوئے حالات کو ایک مشن سمجھ کر درست کرے صبح کاذب سیصبح صادق کا طلوع ہونا ضروری ہو جائے گا دولت اور شہرت کی تمنا گاہ سے نکل کر ہی حقیقت کی روشنی چراغوں کو بڑھا سکتی ہے انسانوں کی خدمت اور فلاح میں مصروف لوگ امر ہو گئے تاریخ ملک قوم کے ساتھ دھوکہ فریب کا کھیل کھیلنے والے بدقسمت لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ بدنامی کی سیاہی پھینکتی رہتی ہے ۔ ہمارے سروں سے فلاح بہبود کی چادر چھیننے والے آہوں کی آندھیوں میں اڑ جائیں گے وقت کسی کی مٹھی میں بند نہیں رہتا احساس کرنے والے لو گ بھی اسی بے پرواہ معاشرے میں جنم لیتے ہیں وہ خود تکلیف میں رہ کر آسانیاں بانٹتے ہیں دنیا کی نگاہوں میں ملک قوم کا نام روشن کرتے ہیں شب وروز کی پرخلوص محنت سے خادم قوم کے القابات سے سرفراز کیے جاتے ہیں انسیت اور مروت کے بارے میں سوچنے کا وقت مل جائے تو آسمان کے دروازے پر دستک دینے والے انسانوں کے دلوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے گھر کا راستہ بھولے ہوئے ہیں بے جا ن چیزوں سے محبت کرنے والے لوگوں کے پاس محبت بھرے دل نہیںجو انسانیت کی خدمت کریں اور مخدوم بن جائیں ناامیدی گناہ ہے وقت بدلے گا اور ضرور بدلے گا۔ ہمیں انتظار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے