کالم

قومی دھارے میں شمولیت

یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ ایک برس پہلے گلزار امام جیسی شخصیت قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے کچھ عرصے بعد سرفراز بنگلزائی اور ان کے 70سے زائد ساتھیوں نے بھی اعلانیہ اعتراف کیا کہ پہلے وہ کچھ مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے مگر اب وہ پوری طرح سے قومی دھارے میں رہیں گے اور پاکستان اور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کےلئے اپنا قومی فریضہ نبھائیں گے۔ مبصرین کے مطابق یہ بات سبھی جانتے ہےں کہ ان دنوں بلوچستان اور ملک کے کچھ حلقے دہشت گردی کی نئی لہر کی پلیٹ میں ہےں اسی ضمن میں معتبر سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس امر میں کوئی شبہ نہےں کہ شدت پسندی کا مکمل خاتمہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب معاشرے کے تمام طبقات اس ضمن میں دل و جان سے کوشش کریں اور یہ بات خاصی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ اس حوالے سے پیش رفت دھیمے مگر تسلسل کے ساتھ جاری ہے مگر اس ضمن میں بلاشبہ بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کسی بھی علاقے میں عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن اس میں کامیابی تب ہی ممکن ہوتی ہے جب پوری قوم عسکریت پسندی ختم کرنے کا ارادہ کرے۔یاد رہے کہ ریاست اپنی طاقت اور مضبوط عزم کے ذریعے قانون شکنوں کے خلاف کاروائی کرنےکی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔ مبصرین کے مطابق ہمارے اختلافات کو بطور ایندھن استعمال کرتی ہوئی دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوانوں کومثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے گمراہ افراد کو زمینی حقائق سے دوبارہ ہم آہنگ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہےں کہ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور وہ عسکریت پسندوں کو پرامن اور خوشحال بلوچستان کے ویژن کو ہائی جیک نہیں کرنے دیں۔ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ جس طور قومی سلامتی کے اداروں نے جس طرح گلزار امام جیسے دہشتگرد کو گرفتار کیا،اس سے ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ پاک انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات کی پوری صلاحیت رکھتی ہےں کہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجزکا بروقت تدارک کر سکیں ۔ اس سے پہلے جس طرح کل بھوشن یادو اور اس کے گروہ کو کیفردار تک پہنچایا گیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہےں ۔اس ضمن میں گلزار امام شنبے کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنےوالے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حالات کا تدارک ہے اور صورت حال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ انتہاءپسند گروپوں (خصوصاً بی ایل اے، مجید بریگیڈ اور بی ایل ایف) کے باہمی اور اندرونی اختلافات نے ان کی اہلیت کو کافی حد تک متاثر بلکہ نقصان پہنچایا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس بات کو واضح کرنا انتہائی ضروری ہے کہ بیرون ملک قیام پذیر نام نہاد بلوچ Nationalists خود تو انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی ایما پر لڑنے والے انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سبھی حلقے ان تضادات کو پوری طرح واضح کریں اور عام لوگوں تک یہ پیغا م پہنچائیں کہ پاک ریاست دل و جان سے بلوچستان کی عوام کے ساتھ کھڑی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرے گمراہ بلوچ بھائیوں اور بہنوں کے مابین باہمی اعتماد کو فروغ دیا جائے ۔
اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رکھنا نتہائی ضروری ہے کہ عسکریت پسندوں کو جب ریاستی مضبوط پیغام پہنچ جائے کہ ریاست پوری طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان کو قومی دھارے میں شامل کر نا چاہتی ہے تو ان کو خوش آمدید کہنا چاہیے کیوں کہ ان کے ہتھیار ڈالنے اور مفاہمت سے ہی سے بلوچستان اور پاکستان ان کی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ اس حوالے سے یہ با ت خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری اتنی سادہ ہر گز نہےں تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس دہشت گرد کو انتہائی مہارت اور جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا اور اکثر حلقے متفق ہےں کہ کلبھوشن اور گلزار امام کی گرفتاری اس امر کا ثبوت ہے کہ پاک اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی پیشہ وارنہ مہارت میں اپنا ثانی نہےں رکھتیں اور اس ضمن میں جس طور شاندار کارگردگی کا مظاہرہ کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اس تمام پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ امر زیادہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ حالات میں دیر پا بہتری کیلئے چند اقدامات اٹھانا ناگزیر ہےں جن کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ
1۔ قومی سطح پر اس حوالے سے بیک وقت قلیل المدتی اور طویل المدتی حکمت عملی مرتب کی جائے اور اس ضمن میں ابہام کی گنجائش کم سے کم ہو۔
2۔ معاشرتی سطح پر قومی ہم آہنگی کےلئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کےے جائیں
3۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے ذریعے عملی اقدامات اٹھائے جائیں لیکن ایسا کرتے ہوئے اس امر کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ دور حاضر میں مس انفو میشن اور ڈس انفو میشن آپس میںگڈمڈ ہو چکی ہےں ۔کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے اس حقیقت کا پوری ادارک اشد ضروری ہے کیوں کہ ایسا کرتے ہوئے معمولی سی غلطی مجموعی صورتحال کو پوری طرح تبدیل کر سکتی ہے گویا
ہم وفا لکھتے ہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
یوں محرم سے مجرم بنتے ذرا سی بھی دیر نہےں لگتی ۔حرف آخر کے طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ پالیسی ساز حلقے اپنی حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے سارے منظر نامے کو سامنے رکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے