وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام ہونے والی قومی سیرت کانفرنس کا موضوع بالواسطہ یا بلاوسطہ طور پر کروڈوں پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز بنا،مثلا اس پر اظہار خیال کیا گیا کہ ملکی معاشی استحکام کےلئے حکمت عملی سیرت النبی کی روشنی میں”۔ کانفرنس کے میزبان اور نگران وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے افتتاحی سیشن میں کہا کہ ہمارے علما کرام کے وعظ میں عہد حاضر کا لمس ہونا چاہے ،ان کا کہنا تھا کہ سیرت کی مکمل پیروی میں ہمارےروزمرہ کے معاشرتی مسائل کا حل پوشیدہ ہے ،یقینا وفاقی وزیر مذہبی امور نے جس درد دل سے کے ساتھ مذکورہ الفاظ ادا کیے وہ مملکت خداداد پاکستان میں ایسے اسلامی معاشرے کے نفاذ کی خواہش ظاہرکرتے ہیں جو پاکستان کو عصر حاضر کی جدید مسلم ریاست کے منصب پر فائز کرڈالے ، آج معاملہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس وہ آفاقی پیغام نہیں جسے بجا طور پر افراد ہی نہیں قوموں کے عروج وزوال کے لیے نسخہ کمیا سمجھا جاتا ہے ، اس کے برعکس مشکل یہ ہے کہ ہم دل وجان سے اسلامی اصولوں پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نہیں ۔ یہ سوال کسی طورپر غیر حقیقت پسندانہ نہیں کہ مغربی دنیا آج ان ہی اصولوں پر کاربند ہے جو ہمارے نبی ﷺنے صدیوں قبل بتا ڈالے ، مثلا ًجھوٹ سے دوری ، وعدے وفا کرنا ، امانت میں خیانت نہ کرنا ، انصاف کرنا چاہے قریبی رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، امانتیں اہل افراد کے سپرد کرنا ، فروغ علم ، صلہ رحمی سے کام لینا، عورتوں کا احترام ، غرض وہ تمام سنہری اصول جو آج کسی بھی ترقی یافتہ مغربی معاشرے میں باآسانی دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں، وفاقی وزیر مذہبی امور کا یہ تاثر بھی غلط نہیں کہ اہل مذہب اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، کہا جاتا ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ خود کو ایسا عملی نمونہ بنا کر پیش کرنے میں ناکام رہا جو دوسروں کے لیے مثال بن جاتا ، یعنی عام شہری کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر مذہب کی تعلیم دینے والوں کے قول وفعل میں تضاد ہے تو وہ کیونکر اچھا مسلمان بن سکتا ہے ، وفاقی وزیر مذہبی امور نے سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مذید کہا کہ علما کرام اور اہل دانش کو سیرت طیبہ کی روشنی میں ملکی مسائل کا حل پیش کرنا ہوگا، ان کے بقول علما کرام بتائیں کہ ہمارے نبی ﷺاپنے امتی کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے ، انیق احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے دین نے علم کو کلیدی اہمیت دی کیا ہم ایسا ہی کررہے ہیں،بلاشبہ وفاقی وزیر مذہبی امور کے مذکورہ نکات ہی ہماری کامیابی اور ناکامی کا تعین کردیتے ہیں، مثلاً ہمارا دین کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد وعورت پر فرض ہے ، اب بطور پاکستانی مسلمان خود سے سوال کرنا چاہے کہ ہم کب اور کیسے علم حاصل کرنے جیسا فرض ادا کرنے میں کامیاب ہوئے ، سچ یہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں لاکھوں بچے سکول جانے سے محروم ہیں، چائلڈ لبیر کی شکل میں ہمیں ایسے مسلے کا سامنا ہے جس سے مستقبل قریب میں نمٹنا کسی طورپر آسان نہیں ہوگا، ایک طرف ہم اپنی نئی نسل کو علم سے محروم رکھنے کے جرم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل ہیں جبکہ دوسری جانب طبقاتی نظام تعلیم ہماری نیت اوراخلاص دونوں پر سوالات اٹھا چکا، افسوس کہ بطور قوم ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ آج کی دنیا جدید علم وفنون پر کھڑی ہے ، قوموں کی صف میں خود کو منوانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ علم کو فروغ دیا جائے ،ہم ناجانے کیوں فراموش کررہے ہیں کہ مغربی ممالک جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہی ہم پر حکمران ہیں۔ وفاقی وزیر نے خطاب میں یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ ایک مسلمان کی زندگی کسی طور پر رائیگاں نہیں جاتی بلکہ وہ اپنی اور معاشرے کی اصلاح میں اپنے شب و روز بسر کرتا ہے ،” یقینا انیق احمد کا سوال ہمیں فکر وعمل کے ایسے جہان میں لا کھڑا کرتا جہاں خود احتسابی کے بغیر بات نہیں بنتی ،پوچھا جاسکتا ہے کہ ہم میں سے کتنے اپنی اصلاح کرتے ہوئے معاشرے کی بہتری کے لیے کردار ادا کررہے ہیں ، وفاقی وزیر مذہبی امور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سچا امتی وہ ہے جس کو دیکھ کر نبی اکرم کے اخلاق یاد آجائیں ” یقینا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے خاص وعام میں سے آخر کتنے ایسے ہیں جن کے اخلاق دیکھ ک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوجائے، صدر مملکت ڈاکڑعارف علوی نے اپنے خطاب میں سیرت پاک کے کئی اہم پہلووں کی جانب حاضرین مجلس کی توجہ مبذول کروائی مثلا صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اسلام نے ارتکاز دولت کو زہر قرار دیا ہے۔یقینا ڈاکڑ عارف علوی کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے مگر افسوس ہمارے ہاں صورت حال بالکل ہی الٹ ہی دکھائی دیتی ہے ، ہم جب اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو امیر تو امیر تر ہورہا ہے مگر غریب مسلسل غربت کی چکی میں پس رہا ہے ، صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ قومیں نفاق سے نہیں درگرز سے بنتی ہیں، یقینا صدر پاکستان کا اشارہ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برادشت کی طرف تھا جو مسائل کم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے ، سیرت کانفرنس سے وفاقی وزیر داخلہ سمیت کئی نامور علما و دانشوروں نے بھی خطاب کیا ۔