کالم

قومےں غلام کب بنتی ہےں ؟

آج کے سائنسی ترقی کے دور مےں بھی جاگےردار وں نے اپنی رےاست کے تمام باشندوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور آزادی فکر سمےت ہر قسم کی آزادی سلب کر رکھی ہے ۔تصور پاکستان کے خالق ہمارے قومی شاعرڈاکٹر علامہ اقبال ؒ قوم کو خوئے غلامی سے نجات کے حصول کےلئے کہتے ہوئے دنےا سے سدھار گئے لےکن حکمرانوں سمےت ہم کبھی بھی اس غلامانہ ذہنےت سے چھٹکارا نہ پا سکے ۔انگرےز کب کا ےہاں سے رخصت ہو چکا لےکن ہم ہےں کہ ابھی تک ان کے ذہنی غلام ہےں ۔ہم نے ہمےشہ غلامی کو ترجےح دی اور اسی مےں عافےت جانی ۔معزز قارئےن غلامی کی بھی کئی اقسام ہےں ۔سوال پوچھا گےا ” قومےں غلام کب بنتی ہےں ؟“ شاگردوں نے اپنے اپنے فہم کے مطابق جواب دئےے ۔کسی کا کہنا تھا جب اخلاقی اقدار ختم ہو جائےں ۔کسی نے کہا جب ذہنوں سے دےوتاﺅں کا خوف ختم ہو جائے ۔اےک نے کہا کہ نا اہل حکمران مسند اقتدار پر قابض ہو جائےں ۔جب سب جواب دے چکے تو قرےب ہی بوسےدہ چٹائی پر نےم دراز استاد اٹھ بےٹھا ۔اس نے اےک لمحے کےلئے سب نوجوانوں کا جائزہ لےا اور گوےا ہوا ،مےرے بچو: تم نے شاید غلامی سے مراد صرف عملی غلامی ہی لی ہے ۔غلامی کی اےک قسم ذہنی غلامی بھی ہوتی ہے ۔جب شجاعت و دانائی اور بلند مراتب صرف چند مخصوص خاندانوں اور گھرانوں کی مےراث سمجھ لئے جاتے ہےں ۔جب اےسا ہو جائے تو عام لوگوں کےلئے آگے بڑھنے اور کچھ پانے کے راستے بند ہو جاتے ہےں ۔ےوں کچھ عرصہ بعد وہ معاشرہ غلاظت اور تعفن سے بھرا جوہڑ بن جاتا ہے ۔ تب عملی طور پر نہ سہی قومےں ذہنی غلام ضرور بن جاتی ہےں ۔عظےم فلاسفر دےو جانسن کلبی کی ےہ بات دو ہزار سال بعد آج بھی اےک حقےقت اور اتنی ہی فکر انگےز ہے ۔ترقی ےافتہ ممالک تو اس سے جان چھڑا گئے مگر تےسری دنےا کے بےشتر ملکوں مےں اس ذہنی غلامی کی ےہی قسم کارفرما نظر آتی ہے ۔بڑی شخصےات اور خاندانوں کی سحر آفرےنی پاکستان مےں بہت زےادہ نظر آتی ہے ۔بات ےہ نہےں کہ کسی رواےتی خاندان کے فرزند ےا کسی سابق حکمران کا بےٹا ےا بےٹی کے سےاست مےں آنے کا حق ختم ہو گےا ۔اصل بات ےہ ہے کہ ہم بحیثےت قوم چند شخصےات اور گھرانوں کے اسےر ہو کر رہ گئے ہےں ،نہ صرف ملکی اور قومی سطح پر بلکہ صوبے اور علاقے کی سطح پر ےہی امر کار فرما ہے ۔سالوں اور پشتوں سے غالب سےاسی رہنما ہمےشہ اسی خاص علاقے کی مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے ہےں ۔اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج پاکستان اےسے زخم زخم بدن کی مثال ہے جس پر کہاں کہاں پھاہا رکھا جائے ۔کوئی شعبہ زندگی اےسا نہےں رہ گےا جس کے بارے مےں پورے وثوق اور ےقےن سے کہا جا سکے کہ ےہاں کوئی مسئلہ نہےں ۔تعلےم ،ٹرانسپورٹ ،بڑھتی ہوئی آبادی ،آلودگی ،گرانی ،دہشت گردی ،ملاوٹ ، ڈاکہ زنی ،پانی کی چوری ، پلاٹوں مےں فراڈ ، ناجائز تجاوزات ،ادوےات مےں نمبر دو ،بے روزگاری ،مذہبی منافرت ،بجلی اور گےس کی قلت ،امرےکی دوستانہ بمبار منٹ ،حادثات ، کتنے ہی ان گنت اور لامحدود مسائل ہےں جنہےں ہم حل کرنے مےں مسلسل ناکام نظر آتے ہےں اور ےہ صرف اور صرف ہمارے اسی حکمران طبقہ اور مراعات ےافتہ اشرافےہ کا شاخسانہ ہے ۔ آج اگر ہمےں ہر نئے دن کے ساتھ اےک نئے المےے سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے تو ےہ محض نائن الےون کے بعد رونما ہونےوالی تےز رفتار تبدےلےوں کا فال آﺅٹ نہےں اور نہ ہی امرےکہ کے جدےد اور قدامت پسندوں کے نےو ورلڈ آرڈر اور ان کی جہادی توسےع پسندی کے کھاتے مےں ڈال کر ہم خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہےں ۔ےہ ہماری برس دو برس کی نادانےوں کا نتےجہ نہےں بلکہ نصف برس سے زائد پر پھےلی ہوئی منافقت کی بوجھل کہانی ہے ۔1977ءسے آج تک ہماری سےاہ و سفےد کی مالک حکمران اشرافےہ اور اس کے ہمہ مقتدر طبقات کے علاوہ مفاد پرستوں کے اےک بڑے ٹولے نے ہمارے سےاسی اور سماجی ماحول مےں جو کانٹے اپنے ہاتھوں سے بوئے تھے اب انہی کانٹوں کی فصل کو اےک اےک کر کے پلکوں سے چننا پڑے گا ۔ جب قےادت چند لوگوں کی مےراث بن جاتی ہے تو قائدےن کے قد اتنے ہی چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہےں ۔ترقی ےافتہ مغربی اقوام نے اپنے سسٹم کو مضبوط بناےا ،فرد اور خاندان کو نہےں ۔اس کا نتےجہ ےہ نکلا کہ وہاں جو بھی حکمران برسر اقتدار آئے ان کی سر کردگی و رہنمائی مےں وہ ممالک بتدرےج ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے ۔اس کے بر عکس ہم خاندانوں اور سےاسی گروپوں کو مضبوط کرتے رہے اور ہنوز کر رہے ہےں ۔ہم وہ لوگ ہےں جو عطائےوں سے مسےحائی مانگتے ہےں اور جگنوﺅں سے توقع رکھتے ہےں کہ وہ آماﺅس کی رات کو روشن کر دےں گے ۔ وطن عزےز کی پوری تارےخ نعروں ،ہنگاموں ، دعوﺅں اور وعدوں کی تارےخ ہے ۔حکومتوں کے وعدے اور دعوے اور اپوزےشن کے نعرے ،ہنگامے اور احتجاج۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے