کالم

قوم شہدا کی قربانیوں کی ہمیشہ مقروض رہے گی

سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان ایک وضع دار و تجربہ کار اور اہم و متحرک رہنما کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں ، ان کی ساکھ و شہرت اچھی ہے اور خدمات و اخلاقیات بھی مثالی ہیں اس لیے میرا ان سے خلوص و محبت اور تکریم و احترام کا ایک ربط و تعلق ہے ، اس کے علاوہ شہید جنرل اختر عبدالرحمن کے فرزند ارجمند ہونے کے ناطے سے بھی میرے اندر من کے مندر میں ان کے لیے بے حد ہمدردی و محبت و عقیدت ہے ۔ بد زبانی اور بدگمانی کے اس عہد موجود میں میرے دیس و سماج کو ایسی ہی روادار و اعلی ظرف ہستیوں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس قحط الرجال میں یہی پھول کھلیں گے تو خوشبو ہوگی اور یہی چاند چمکیں گے تو روشنی ہوگی ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ وہ مزدور ، کسان اور عام آدمی کے حالات و مسائل و مشکلات سے بخوبی واقف ہیں اور عوام کی مایوسیوں اور محرومیوں کے خاتمے کے لیے اپنا ہر ممکن اور بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ، سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان نے یہ صد فیصد درست کہا ہے کہ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں ، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی ہی اجیرن ہو گئی ہے لہذا حکومت عام آدمی ، مزدوروں اور چھوٹے کسانوں کو بہتر سے بہتر سہولیات دے اور فوری طور پر دے۔ صد افسوس کہ اس اتحادی حکومت نے نئے مالی سال کے پہلے بجٹ میں ہی پہلی اسلامی دیتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 9 روپے اور 56 پیسے فی لٹر تک اضافہ کر دیا ہے اس کے علاوہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ شیخ رشید فرماتے ہیں میرا گیس کا بل ایک لاکھ روپے اور بجلی کا بل ایک لاکھ 68 ہزار روپے آیا ہے ، میرے محلے میں ہر گھر کا گیس بل آٹھ ہزار تک آیا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس بار میں نے ان بجلی گیس کے بلوں کی وجہ سے ہر پاکستانی کو پریشان حال اور فکر مند دیکھا ہے ۔ مزدور کا چولہا نہیں جلتا جن کے خون پسینے سے ان کی انڈسٹریاں چلتی ہے ۔ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان پینے کے لیے صاف پانی کو ترستا ہے اور کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی کو روتا ہے ۔
سانس باقی سانس میں ہے
نہ ہی جان باقی تن میں ہے
جیسے زندگی ایک اجڑا ہوا
لاغر پنچھی نشیمن میں ہے
عصر حاضر کی ہماری تمام اپوزیشن پارٹیاں مل بیٹھنے کی بات تو کرتی ہیں لیکن پھر بھی بیٹھ نہیں سکتی ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ انہیں ایک دوسرے پر اعتماد بالکل بھی نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں اور مزید شدت اختیار کر رہے ہیں ، ان حالات میں اس اپوزیشن سے کوئی کیوں اور کیسے یہ امید رکھے کہ یہ متحد اور یکجا ہو کر اس کمر توڑ مہنگائی اور ظلم کے نظام کے خلاف لڑیں گے ۔ سینیٹ میں ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کا اگلا ہدف اقتصادی پابندیاں لگوانے کی قرارداد منظور کرانا ہے ۔ اب سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا ۔ فیض کے الفاظ میں :
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
فرمایا ایک ترقی پسند فلسفی نے کہ طوفان سیاہ بادلوں کی مانند ہماری محبتوں اور مسرتوں کو چھپا لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایک امید تو موجود ہے ۔ ان دنوں اپنا حال بھی کچھ یوں ہی ہے کہ آس ٹوٹتی نہیں اور امید مرتی نہیں ۔ ہم بھی اپنے پر امید وزیر خزانہ سے امید باندھے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کٹھن پتھریلے راستوں میں ان تاریکیوں میں اہل پاکستان کے لیے روشنی کی ایک کرن ثابت ہوں گے اس لیے وہی ہیں جو ہماری امیدوں کا مرکز و محور ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے میں کبھی نہیں ملا لیکن ان کے بارے میں میری رائے مثبت ہے ، اللہ کرے کہ ویسے ہی ہو جیسے وہ فرما رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں انتہائی تلخ و ترش سوالات کا جواب بہت ہی حکمت و تدبر اور خندہ پیشانی سے دیا ، جب پوچھا گیا کہ آپ کسی وقت ملک چھوڑ کر دوبارہ دوہری شہریت حاصل کر کے واپس بھاگ تو نہیں جائیں گے۔؟ اس پر ملک کے سابق اٹارنی جنرل چوہدری محمد فاروق مرحوم کے فرزند نے مسکرا کر کہا کہ چھ سال سے غیر ملکی شہریت ترک کر کے پاکستان میں سب سے بڑا نجی بینک چلا رہا ہوں ، واپس جانے کی کوئی آرزو نہیں اور نہ ہی شہریت ایسے ملتی ہے کہ جب چاہیں لے لیں اور جب چاہیں واپس کر دیں ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ غریب ، تنخواہ دار طبقے پر کافی بوجھ آیا ہے ان سے ہمدردی ہے ، انہوں نے یقین دلایا کہ جلد گنجائش پیدا ہوگی بوجھ کم کریں گے ضرور مراعات دیں گے ، حکومت راحت رسانی کرے گی ، وہ بہت پر امید تھے کہ چھ سے آٹھ ارب ڈالر کا پروگرام طے ہو جائے گا جو تین سال پر محیط ہوگا اور یہ IMFکے ساتھ پاکستان کا اخری پروگرام ہوگا ۔ ہر پاکستانی کو دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ کریم کے کرم سے ہم جلد از جلد IMF کے شکنجے سے نکلیں ، معیشت مضبوط ہو ، ہر سو ہریالی ہو خوشحالی ہو ، ملک و قوم کی بھلائی ہو ، عام پاکستانی کی زندگی آسان ہو ، خلوص و اخوت اور محبت و امن کا بول بالا ہو ، ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کا منہ کالا ہو تاکہ سب پاکستانی چین و سکون کی نیند سو سکیں ، ہم ایک طویل مدت سے دہشت گردی کے خلاف برسر جنگ ہیں کتنی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور بفضل اللہ آج بھی ہماری مسلح افواج مادر وطن سے دشتگردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں ۔ آج ایک بار پھر سے ہمیں عزم استحکام کے لیے اختلاف نہیں استقلال کی ضرورت ہے ۔ سردار گینڈا سنگھ مشرقی کے الفاظ میں :
کون سی مشکل ہے جو آساں نہ ہو
دل میں استقلال تھوڑا چاہیے
پاک فوج کے ترجمان ادارے ISPRکے مطابق چند دن قبل ضلع کرم میں انسداد دہشتگردی آپریشنز میں دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کرنے والے کرسچن سپاہیوں ہم سب کے بھائیوں ، ہارون ولیم ، انوش ، رفون اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ان کا اتحاد و بہادری قوم کی طاقت ہے ۔ سپہ سالار نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ قوم مادر وطن کی عزت کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کی ہمیشہ مقروض رہے گی ۔ آج کے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عزم استحکام کو عدم استحکام کہنے والے ضرور ہوش کے ناخن لیں ۔ برصغیر پاک و ہند کے پردھان شاعر اکبر الہ آبادی کے الفاظ میں :
حضرت اکبر کے استقلال کا ہوں معترف
تا بہ مرگ اس پر رہے قائم جو دل میں ٹھان لی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri