کالم

قیامت خیز آلودگی ۔۔۔!

لاہور کو دنیا کا سب سے آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے،اس شہر کی ایئر کوائٹی انڈیکس 394 ہے، واضح ہوکہ 100 اے کیو آئی سے زیادہ غیر صحت بخش اور150 سے زیادہ انتہائی غیر صحت بخش ہوتا ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ لاہور اور مضافات میں ماحول انسانوں اور دیگر جانداروں کیلئے کتنا زیادہ مضر صحت ہوچکاہے؟ دہلی اور مضافات میں بھی ملتا جلتا ماحول اور سماں ہے۔وہاں کے انسانوں اور جانداروں کو ایسے ماحول کا سامنا ہے۔ دنیا میں فضائی آلودگی کے باعث دس میں سے ایک انسان کی موت واقع ہورہی ہے۔دنیا بھر میں سات ملین افراد فضائی آلودگی کے باعث قبل از وقت موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تک چین میں بھی پاکستان اور بھارت جیسے حالات تھے۔2013 میں چین میں دن کے وقت سورج نظر نہیں آتا تھا کیونکہ شہروں پر آلودگی کی تہہ ہوتی تھی۔ایم پی2.5 چھوٹے ذرات جو کہ فصلوں کی باقیات جلانے ، کوئلے ، فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہوتی ہیں۔ چین کی فضا میں ایم پی2.5کے ذرات کی اوسط شرح 52.4 مائیکرو گرام فی مکعب تھی جو کہ بہت ہی زیادہ تھی۔چین کی حکومت اور عوام نے مل کر محض سات سالوں میں فضائی آلودگی میں 40 فیصد کمی لانے میں کامیاب ہوئے،اس کیلئے انھوں نے کوئلہ سے چلنے والی فیکٹریوں کو گیس اور دیگر ذرائع توانائی پر تبدیل کردیے، کوئلے کی27کانیں بند کیں،کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے پلاٹ مکمل طور پر بند کردئے ۔ پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کو کم سے کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ایسی تمام چیزوں کی حوصلہ شکنی کی جس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اس کا یہ رزلٹ برآمد ہوا کہ اب چین میں فضا بہت بہتر ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو فضائی آلودگی کے تناظر میں دیکھیں تو انہی پڑوسی ممالک کے شہر لاہور اور دہلی کا فضائی آلودگی میں سر فہرست رہنے کیلئے کافی تگ ودو اور مقابلہ رہتا ہے، آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ لاہور اور دہلی فضائی آلودگی کے چمپئن ہیں۔ اس کے ثمرات یہ ہیں کہ لاہور اور دہلی کے لوگوں کی اوسط عمریں کم ہورہی ہیں، یہ لوگ موذی امراض میں مبتلاہورہے ہیں،سالانہ اربوں روپے ادویات پر صرف کررہے ہیں۔اس کے بھیانک اثرات پورے خطے پر پڑے رہے ہیں۔اس حالات کے ذمہ داراسی پٹی کے باسی ہیں جو فضا کو آلودہ کررہے ہیں، یہ لوگ اپنی صحت اور دولت کے خود دشمن بن چکے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں اور فرائض کا خیال نہیں رکھتے،اس لیے ان کیلئے موسم اور حالات سب کچھ بدل رہے ہیں۔ جس علاقے میں ماہ ستمبر سے سردی کا آغاز ہوجاتا تھا، اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان سے سردی روٹھ گئی ہے۔دسمبر،جنوری وغیرہ مہینوں میں دن کو خورشید آب و تاب سے نہیں چمکتا بلکہ دلہن کی طرح رخسار پر گھونگٹ ڈال لیتا ہے اور ظہر کے بعد بچوں کی طرح آنکھ مچولی کھلیتا ہے۔رات کے وقت مہتاب شرمیلی دوشیزہ کی طرح اپناچہرہ ڈھاپ لیتا ہے اور ستارے بھی روٹھ کر چھپ جاتے ہیں ۔ سردیوں کے ایام میں دن کو سورج اور رات کو چاند و ستاروں کا نکلنا یہ سب نظارے ماضی کے قصے بنتے جارہے ہیں۔پاکستان میں اسموگ کے باعث موٹروے بند کیے جاتے ہیں لیکن اسموگ کے اسباب کو بند نہیں کیا جاتا ہے ۔ گوکہ پاکستان اور بھارت کے بعض حصوں میں سال بھر میں فضائی آلودگی ہوتی ہے، اکتوبر سے باقاعدہ اسموگ واضح نظر آنے لگتا ہے لیکن فضائی آلودگی اور اسموگ کو کم یا ختم کرنے کیلئے کاغذی کاروائیوں تک ضرور کوشش ہوتی ہے لیکن عملا کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ کہنے کو توپنجاب میں اینٹی اسموگ اسکواڈ بھی بنالیا ہے لیکن یہ ایسا ہے کہ جیسے محکمہ اینٹی کرپشن وجود میں لایا گیا ہے لیکن کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی بنالیا گیا لیکن آپ کو کہیں بھی خالص خوراک نہیں ملے گا۔محکمہ جات یا اسکواڈ بنانے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ،مسلسل محنت اور دیانتداری سے کا م کرنا پڑتا ہے ۔ کہنے کو تو بھارت معاشی ترقی کررہا ہے لیکن بھارت کے عام آدمی کی زندگی پر اس کے کوئی اثرات نہیں پڑرہے ہیں۔بھارت کا عام آدمی غربت کی دلدل سے باہر نہیں نکلا ہے، چند خاندان کی دولت میں اضافہ کوئی ترقی نہیں ہے بلکہ یہ تو تنزیلی ہے اور یہ معاشرے کیلئے تباہ کن ہے۔پائیدار ترقی وہ ہوتی ہے جس سے حقیقتاًاکثریت آبادی کی زیست میں نمایاں بہتری آجائے۔بھارت میں 1.3 بلین افراد یعنی 96فی صد افراد آبادی پی ایم 2.5سے متاثر ہے۔اکتوبر اور نومبر میں بھارتی پنجاب اور ہریانہ وغیرہ ریاستوں میں فصلوں کی باقیات جلانے کا عمل شروع ہوجاتاہے جس سے فضائی آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح پاکستانی پنجاب میں بھی یہی عمل دوہرا جاتا ہے جس سے فضائی آلودگی انتہائی خراب ہورہی ہے ۔ فصلوں کے باقیات جلانے ، گاڑیوں، فیکٹروں، اینٹوں کے بھٹے کے چمنیوں سے دھواں،ردی اور نکارہ اشیا جلانے،صنعتی استعمال کے فوسل فیولز، پرانی عمارتیں گرانے سمیت متعدد عناصر فضائی آلودگی کے اسباب ہیں ۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں کو فضائی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اور سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ اپنی ذات، انسانوں، جانوروں، فصلوں اور دیگر جاندار اشیا کوقیامت خیر آلودگی سے بچانے کیلئے ہر فرد انفرادی اوراجتماعی پر کوشش کریں۔ اپنے آپ کو اور سب کو آلودگی سے بچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے