نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے قیدیوں کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی ہر قیدی سے فرداً فرداً ملاقات کرے گی اور تمام شواہد کا جائزہ لے کر بے گناہ قیدیوں کے بارے رپورٹ پیش کرے گی۔محسن نقوی نے کیمپ جیل کے دورے کے دوران بیرکس میں جا کر قیدیوں کے مسائل سنے اور جیل میں قیدیوں کے لئے فراہم کردہ سہولتوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں بے گناہ قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔یوں کوئی بے گناہ جیل میں نہیں رہے گا اور گناہ گار چھوٹے گا نہیں۔ وزیراعلیٰ نے بیرکس میں قیدیوں کے لئے ائیرکولر نہ ہونے پر شدید برہمی کااظہار کیا اور3 روز میں تمام بیرکس میں ائیر کولر اور نئے پنکھے لگانے کا حکم دیا۔ ڈپٹی کمشنر کو 3 روز بعد جیل کا دورہ کرکے ائیر کولرز چیک کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔محسن نقوی نے قیدیوں سے جیل عملے کے سلوک کے بارے دریافت کیاجس پربعض قیدیوں نے جیل عملے کی جانب سے تشدد کی شکایات کیں ۔ جیل کے کچن کے معائنہ میں خود کھانا کھا کر کھانے کی کوالٹی چیک کی۔ اناج کے گودام کو بھی چیک کیا۔ پی سی او کا بھی وزٹ کیا اور قیدیوں کی اپنے عزیز و اقارب سے گفتگو کا مشاہدہ کیا اور قیدیوں کومقررکردہ وقت کے مطابق عزیز واقارب سے بات نہ کرانے پر ناراضگی کا اظہارکیااورقیدیوں کی ہر ہفتے 2 بار عزیز و اقارب سے گفتگو کرانے کی ہدایت کی۔وزیر اعلیٰ نے چھوٹی بیرکس میں 11، 11 قیدی دیکھ کر ناراضگی کااظہار کیااور کہاکہ گرمی اور حبس میں قیدیوں کو اس طرح رکھنا کسی طور درست نہیں۔ قیدیوں کو بیرکس کی گنجائش کے مطابق رکھنے کا حکم دیا۔ محسن نقوی نے قیدی بچوں کےلئے ووکیشنل سکول اور کمپیوٹر لیب کا بھی وزٹ کیا اور بچوں کے کیسز کے بارے پوچھا ۔ قیدی بچوں کا باقاعدگی سے میڈیکل چیک اپ کرانے کی ہدایت کی۔ محسن نقوی نے جیل ہسپتال کا بھی دورہ کیا اور قیدیوں کےلئے میڈیکل کی سہولتوں کاجائزہ لیا اورمریضوں سے علاج معالجے کی سہولتوں کے بارے استفسار کیا اور جیل ہسپتال میں مریضوں کو اچھا علاج معالجہ اور ضروری ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے پاس بھی گئے اور ان سے گفتگو کی ۔ ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے ڈاکٹر سے باقاعدہ چیک اپ کی ہدایت کی۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ قیدی بھی انسان ہیں، انہیں بنیادی سہولتیں ملنی چاہئیں۔جیل ریفارمزکمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جیل میں قیدیوں کے کھانےکا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے، جیل سے اہلخانہ سے فون پر گفتگو کا دورانیہ ماہانہ 300 منٹ کردیا ہے جبکہ جیل اسپتالوں کا انتظام محکمہ صحت کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کےلئے بیکری اور یوٹیلیٹی اسٹور بنائے جا رہے ہیں، جیلو ں میں پنکھے اور کولر پوری طرح فنکشنل ہیں۔پنجاب حکومت کی طرف سے جیلوں میں اصلاحاتی پروگرام کے تحت تمام قیدیوں کو فوم کے گدے، کمبل اور تکیہ وغیرہ گھر سے لا کر استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے قیدیوں کو گھر سے استعمال کی چیزیں لانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح سردیوں میں قیدیوں کےلئے گرم پانی کی سہولت قیدیوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ پنجاب بھر کی جیلوں میں کیبل ٹی وی انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب قیدی فلمیں ڈرامے اور گانے بھی دیکھ سکیں گے جبکہ جیلوں میں ایل سی ڈی ٹی وی بھی نصب کیے جائیں گے۔ جیلوں کے نظم نسق کو مزید بہتر بنانے کےلئے پانچ ہزار کے قریب نئے وارڈنز کی بھرتی کے علاوہ جیلوں کے عملے کےلئے سروس سٹرکچر بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے اجلاس میں جیلوں میں قائم ہسپتالوں اور ڈسپنسریز میں خالی آسامیوں پر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی بھرتیاں کرنے کے بھی احکامات دیے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے قیدیوں پر تشدد اورغیر انسانی سلوک کے خاتمے کےلئے قابل عمل سفارشات مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ جیلوں کے اندر ویڈیو سرویلنس بڑھائی جائے تاکہ تشدد کے واقعات کی روک تھام ہو۔ جیلوں میں لگے فون بوتھ میں یہ سہولت دی گئی ہے کہ کوئی قیدی اپنے گھر والوں یا وکیل سے کال پر بات کرتے ہوئے ایک بٹن دبا کر اپنے ساتھ ہونےوالے سلوک سے متعلق الرٹ کر سکتا ہے۔