کالم

لاہور، دھند میں گم

وہ علاقے جو سمندروں، دریا کنارے آباد ہوتے یا جن کے درمیان سے نہریں گزرتی ہیں، وہاں دھندرات کے پچھلے پہر سے دن چڑھنے تک چھائی رہتی ہے اور جونہی اس پر سورج کی کرنیں اپنی تمازت چھوڑتی ہیں تو یہ آہستہ آہستہ بھاگنے لگتی ہے، لیکن گزشتہ چند سالوں سے تو اب اس سے ایک بہت ہی کوئی بڑی عفریت سموگ نامی زہر آلود بیماری نے اس دھند کو تو کیا شہروں کے شہروں کو اپنے جبڑوں میں دبوچ رکھا ہے، دھند سردی کی وجہ سے قدرتی طور پر پیدا ہو کر قدرتی طور پر ہی غائب ہو جاتی لیکن گہری اور کالی سموگ کے بادل غائب ہونے کا نام نہیں لیتے جس نے سکول بند، کاروبار تباہ اور شہریوں کی صحت کا برا حال کر دیا ہوا ہے۔اجلا اجلا، پھولوں سے لدا پھندا شہر لاہور آجکل کوالٹی انڈکس میں دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر اکثر رہتا ہے۔ قارئین کرام دھند ایک قدرتی عمل سے پیدا اور غائب ہو جاتی ہے لیکن سموگ چونکہ انسان کی اپنی کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے اور یہ تحفہ خالصتاً انسان نے خود سے انسانوں کو دیا ہے اِسلئے اب اسے بھگانے یا اس سے چھٹکارے کیلئے دوسرے ممالک کی امداد کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے، کبھی ہم دفتروں کو بند کر دیتے ہیں، طالب علموں کو گھر پر رہنے پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی مصنوعی بارش برسا کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سوچتے ہیں کہ مسئلہ شاید اب حل ہو جائیگا لیکن یہ تو بعد کی بات ہے کہ ہوائی جہاز کے ذریعے سلور آئیوڈئزڈ نمک کے چھڑکاو¿ والی برسائی گئی اس نقلی برسات کا ایک ایک قطرہ اس قوم کو کتنے لاکھوں میں پڑا اور وہ بھی صرف پندرہ منٹوں کے واسطے۔ سنا ہے نتیجہ صفر بٹہ صفر رہا لیکن یادہانی کے واسطے نگران وزیر اعلیٰ کی ایک زبردستی مسکراہٹ کی ایک دو سیکنڈ کی ویڈیو کلپ جو چند بوندوں، چند قطروں کو شاید اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھ بیٹھے تھے وہ کچھ دیر میڈیا میں نمایاں رہی۔حضور اگر سموگ کا واقعی خاتمہ چاہیے تھا تو بجائے پوش ایریاز میں نقلی رم جھم کروانے آپ اسکے روٹ کاز پر جاتے اور یہ برکھا ان فیکٹریوں، ان بھٹوں کی چمنیوں پر، کسانوں کی جلائی جانے والی باقیات پر کرواتے، جو اس مسئلہ کی جڑ ہیں تو کہا جا سکتا تھا کہ آپ اس مسئلے کو واقعی سیریس لے رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سموگ پر لاہور ہائی کورٹ بھی حرکت میں آ چکا ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے جسٹس شاہد کریم اس پر متعدد بار سماعت بھی کر چکے ہیں اور ساتھ ساتھ کچھ فوری اقدامات اٹھانے پر بھی احکامات دے چکے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق سردیوں میں سمندروں،دریاو¿ں نہروں، جوہڑوں کے پانیوں اور گیلی مٹی سے اٹھنے والی دھند جب، فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں، فصلوں کی باقیات کو جلانے، گاڑیوں کے ٹیل پائپ سے نکلنے والے دھوئیں اور شہروں کے اندر سے اڑنے والے گرد و غبار سے جب ملتی ہے تو ان سے پیدا ہونے والی مختلف اقسام کی خطرناک مضر صحت گیسز ، جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ ، کاربن مونو آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ، نائیٹروجن آکسائیڈ وغیرہ ہوا میں شامل نمی سے مل کر گندھک اور شورے کے تیزاب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر جب صبح کے وقت ان پر سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں پڑتی ہیں تو انسانی زندگی پر اسکے انتہائی مضر صحت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج لاہور کے علاوہ اسکے گردونواح میں متعدد اضلاع میں ہنگامی حالت کے کچھ اقدامات کر نے پڑ رہے ہیں۔ ہائی کورٹ کا اس سلسلے میں نوٹس لینا اور اس سنگین مسئلے پر متعدد سماعتیں حوصلہ افزا ہیں لیکن انکی رفتار مسئلہ کی سنگینی کے برعکس بہت ہی سست ہے، مسئلہ چونکہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے تو اس پر کام بھی ہنگامی بنیادوں پر روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیئے تاکہ اسکا کوئی حل ڈھونڈا جائے۔جناب فاضل جسٹس کو سپیشل بنچ اون سموگ قرار دیا جائے اور اگر ہو سکے تو ڈویژن یا فل بنچ تشکیل دیا جائے جو روزانہ کم از کم دو گھنٹے بلا توقف مسئلے کو سنے، احکامات پر عملدرآمد کروائے اور روزانہ کی بنیاد پر کام کرے جو کم از ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ چیئرمین سندھ طاس واٹر کونسل محترم سلیمان خان اپنے طور پر اس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر اس پر کچھ نا کرتے نظر آتے ہیں،آپ ایک ماحولیاتی اور انرجی ایکسپرٹ ہیں، حال ہی میں آپ نے سموگ کے خاتمے پر کچھ اپنی سفارشات مرتب کی ہیں جیسے :-
٭ہر ادارہ اپنے اپنے ذرائع سے بارش کے پانی کو جمع کرنے کا پابند ہوگا۔
٭موٹر ویز، ہائی ویز، ریلوے لائنوں اور نہر کے ساتھ ساتھ شجرکاری ہونی چاہیے۔
٭شہروں کے ہر پارک اور سڑک کے اطراف میں شجرکاری کے لیے محکمہ باغبانی کو متحرک کرنا۔
٭ آئین کے آرٹیکل 140Aکے تحت مقامی کونسلوں کے انتخابات ضروری ہیں۔ مقامی کونسلیں آئینی اور قانونی ادارے ہیں اور جب تک ملک میں لوکل کونسلز کو بحال نہیں کیا جاتا، انسداد سموگ کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں۔
٭شہر کے فضلے کو بجلی میں تبدیل کیا جائے اس طرح ہم سموگ کلچر سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
٭موجودہ پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کو تبدیل کرنے کے لیے الیکٹرک کٹس درآمد کی جائیں۔
٭سموگ کے خاتمے کے لیے ایک ماسٹر پلان بنایا جائے گا۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبے بھی بنائے جائیں گے جو ماسٹر پلان کا حصہ ہوں گے۔
٭ماہانہ میٹنگ میں، محکمے پچھلے مہینے کی کارکردگی کا اشتراک کریں گے اور اگلے مہینے کے پلان کو اجاگر کریں گے۔
٭کوئی بس نہیں اسکول نہیں: تصور کریں کہ ہم کتنی پیچیدہ قوم بنا رہے ہیں۔ استاد موٹر سائیکل پر سکول آتے ہیں اور طلبا گاڑیوں پر آ رہے ہیں۔ وہ کمپلیکس کی وجہ سے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے۔ اس طرح سکول کے اوقات میں رش کو کم کر کے smog کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا متعلقہ اتھارٹیز کو چاہئے کہ ان سفارشات پر غور کریں اور مسئلے کے حل میں جو قابل عمل تجاویز ہیں ان پر عمل درآمد بھی کروایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri