کالم

لخت جگربریگیڈیئر حمادلطیف چودھری ”رب سوہنے دے حوالے”

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس نے اپنی فوجی زندگی کے انتہائی اہم کام تکلیف کی حالت میں انجام دئیے۔ نماز مغرب کے بعد میں اسے فون کرتی اور انتظار میں ہوتا جی امی جی، شور شرابے سے اندازہ ہوتا کمرہ دوستوں اور ساتھیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی بزم آرائی ہمیشہ کی طرح جاری تھی۔ ایک روز دن کے ایک بجے فرانس سے آئے اپنی پھپھو کے بیٹے سے ملنے ہمارے گھر آیا۔ ملاقات کے بعد دفتر جانے کی جلدی میں تھاوہ اس وقت یونیفارم میں تھا اور واپس دفتر جا رہا تھا۔ میں نے کہا کھانا تو کھا کر جاؤ، میری بات سن کر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ قمیض کے کالر کو دلکش انداز سے گھما کر کہا ”امی میری وردی میرا کفن ہے فوج میں موج نہیں ”۔ وہ چلا گیا اسکے بعد دو ہفتے تک اس نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ کافی سارے کام اکھٹے ہو گئے تھے اس نے سارا بوجھ اتارنے کی ٹھان لی تھی۔ اس دوران ا سے شدید قسم کا فلو ہو گیا۔ شام کو ہسپتال سے اس کا فون آیا امی کام تو مکمل ہو گیالیکن فلو نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا شکر ہے تو نے اپنی پیاری پاک فوج کا قر ض اتار دیا اس نے شرارت کے انداز میں ہنستے ہوئے کہا ”پاک فوج میرا قرض نہیں اتار سکتی” اور فون بند کر دیا۔ دو ہفتے کے بعد یو اے ای سے بیٹی ڈاکٹر جویریہ کا فون آیا حماد آئی سی یو میں ہے۔ مظفرآباد سے جوادبھائی بھی اس کے پاس پہنچ گیا ہے۔ میںکل کی فلائیٹ سے آرہی ہوں جواد نے آپ کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا لیکن آپ ہسپتال کا چکر لگا لیں۔ حماد کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ اس کا فشار خون اچانک بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور قابو میں نہیں آ رہا ، سانس لینے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔ تیرہ فروری کو ہم جویریہ بیٹی کے ہمراہ دعائیں پڑھتے ہوئے ملٹری ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں پہنچے جواد کا چہرہ سرکاری مصروفیات کے ساتھ ساتھ سفر ، رتجگے اور غم سے اترا ہوا تھا۔ وہ طویل عرصہ سے بھائی کی تیمارداری کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل سنٹرل ڈیزائن آفس کیاہم عہدے کی ذمہ داریاں بھی خوش اسلوبی سے انجام دے رہا تھا۔ درحقیقت دونوں بھائی مصیبت اور تکلیف میں ہمہ جہت طرز حیات کی اعلیٰ مثال قائم کر رہے تھے۔ آج جواد بیٹے کو نڈھال دیکھ کر میرے دل کو زبردستدھچکا لگا اس کا کزن عبدالرحمٰن سیکر ٹری حکومت آزاد کشمیر بغیر کسی اطلاع کے اچانک بے چینی کے عالم میں راولپنڈی سی ایم ایچ پہنچ چکا تھا۔ یہ سارا منظر ہمارے لئے اچانک چونکا دینے والا تھا۔ ہمیں اپنی باری پر اندر جانے کی اجازت ملی لیکن وہ تو مسکرا رہا تھاباہر کے ماحول سے اندرکا ماحول یکسر مختلف تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی” دعا دی یااللہ یہ جوڑی سلامت رکھنا”۔ ہمارے ہاتھ چومے پھر اپنے مخصوص لہجے میںکہا ایک سٹوری سنانی ہے کل سناؤں گا۔ پھر کچھ سوچ کر خود ہی کہا ابھی سنا دیتا ہوں”کل میں آسمان کی طرف جا رہا تھا انتہائی بلندی پر ایک خوبصورت منظر دیکھا ، ہر طرف نور ہی نور تھا، رنگوں اور خوشبوؤں کی پھوار برس رہی تھی، پانی جھلمل کرتے ستاروں کی شکل میں بہہ رہا تھا عجیب حسین منظر تھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جونہی میں انٹری پوائنٹ کی طرف بڑھا آواز آئی واپس جاؤ۔ جب میں زمین کے قریب پہنچا تو امی جھولی پھیلا کر کھڑی تھیں، امی جی میں اوپر جا رہا ہوتا ہوں آپ کی دعائیں مجھے واپس لے آتی ہیں۔ اس نے وقت پوچھا اور عشاء کی نماز پڑھنے لگا۔ میرا پاک باز بیٹا سترہ برس سے تہجد پڑھ رہا تھا۔ جہاد اور عبادت کے علاوہ ا س کاکوئی اور شغل نہ تھا۔ وہ سچا اور جانثار پاکستانی تھا تبھی تو ساری گواہیاں دے کر جا رہاتھا۔ ہمارا وقت ختم ہو گیاتو بوجھل قدموں کے ساتھ واپس گھر آ گئے۔ اس کا جانثار بڑا بھائی جواد ، کزن عبدالرحمٰن ، ذکا قریشی اور اس کا جگری دوست کرنل حسن سبھی رات بھر ادھر ہی تھے۔ جواد اور عبدالرحمن مستقل اس کے سرہانے کھڑے تھے۔ باقی پیاروں کو ڈاکٹروں نے باہر روک رکھا تھااور باری باری چند منٹ کے لئے اس کے پاس جا رہے تھے۔ جو بھی باہر آتا ایک ہی جملہ زبان پر ہوتا ”رب سوہنے دے حوالے” جو حماد ہر ایک سے بار بار دہرا رہا تھا۔ اگلے روز بچوں کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ شام کو بیگم نے دلیہ کھلانا چاہا تو کہا میں” جنت میں ہوں” بیگم نے کہا جنت میں دلیہ کھاؤ گے۔ باتیں کرتے کرتے طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ آخری مرتبہ جوانی سے بھرپور آواز میں تین مرتبہ کہا” Its too good to be true”۔ ماورائے حقیقت کیا دیکھ رہا تھا کسی کو معلوم نہیں تھوڑی دیر کے بعد فوج کے مخصوص انداز میں مکا لہرا کر بازو کی پوری طاقت کے ساتھ تین بار الوداعی کاشن دیا جس میں فوجی نعرہ تکبیر اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس نے زیرلب کلمہ طیبہ پڑھا اور خاموش ہو گیا، سانس اکھڑنے لگی تو ڈاکٹروں کی پوری ٹیم جمع ہو گئی اور آکسیجن ماسک چڑھا دیا گیا۔ چودہ فروری ٢٠٢٥ئ کی سر د شام تھی ، جمعہ کا دن تھا۔ بریگیڈیئر حماد نے تمام نمازیں تیمم کر کے ادا کیں۔ ہم بوڑھے ماں باپ بوجھل قدموں کے ساتھ ایم ایچ راولپنڈی کے آئی سی یو وارڈکی راہداریوں میں آہستہ آہستہ چل رہے تھے جویریہ بیٹینے فون پر بتا دیا تھا آج کی رات بھاری ہے۔ مجھے اپنا وجود انتہائی حقیر لگ رہا تھا جیسے میں جس مینارہ نور کی طرف بڑھ رہی ہوں شاید میں اس کی اہل نہیں تھی یا یہ میری پہنچ سے دوربہت دور تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے آکسیجن ماسک میں تھا۔ ڈاکٹر نے پوچھا آپ بریگیڈیئر صاحب کے والدین ہیں میں نے اثبات میں سر ہلا کر بمشکل کہا کیسی صورتحال ہے انہوں نے جواب دیابس دعا کیجئے اللہ خیر کرے ۔ ہم باہر نکلے تو اس کے جگری دوست کرنل حسن ، جواد ، کرنل عاصم، شاہد سب سر جھکائے کھڑیتھے، اس کی سانس اکھڑ رہی تھی ۔ ہفتے کی رات ایک بجے وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔ اگلے روز پندرہ فروری کو جویریہ بیٹی کی سالگرہ تھی اور حماد کا سبز ہلالی پرچم میں لپٹا جسد خاکی فوجی جوا نوں کے کندھوں پر اس کے گھر پہنچ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ظہر کی نماز کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے اپنے گھر اور بیوی بچوں سے رخصت ہوا۔ چار بجے آرمی قبرستان میں اس کی نماز جنازہ ادا ہوئی ۔ احاطہ خاکی وردیوں اور عوام سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔پاک فوج کے چاک و چو بند دستے نے سلامی دی اورریفرنس پڑھ کر سنایا گیا جس کے آخری الفاظ تھے ”پاک فوج آپکی بہادری اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی”۔اسے عظیم الشان فوجیاعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔ اس کے محبوب کمانڈنگ افسر جنرل علی عباس نے لحد میں اتارتے وقتسلیوٹ کیا تو اس کے ننھے بیٹے محمد علی نے بھی اکڑ کر فوجی انداز میں ”سلیوٹ بابا” کہہ کر سلامی دی اور قبر پر مٹی ڈال دی ۔سپہ سالار جنرل عاصم منیر سمیتپاک فوج کے تمام اداروں کے سربراہان اور جہاں جہاں اس نے کام کیا تھا تمام یونٹوں کی طرف سے اس کی قبر کو پھولوں کے گلدستوں سے ڈھانپ دیا گیا۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
رب سائیں دے حوالے میرے لخت جگر ، وطن کے سرفروش مجاہد ، پاک فوج کے جانباز بہادر بیٹے بریگیڈیئر حماد لطیف چوہدری الوداع، الوداع تیری داستان حیات نسلوں کا لہو گرماتی رہے گی۔(ختم شد)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے