بابا کرمو نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام لوئر جوڈیشری کے ججز کا لکھا گیا خط پر کالم لکھنے کو کہا کہ اس وقت لوئر جوڈیشری کے ججز کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے لہٰذا اس پر لکھنا ضروری ہے تاکہ انصاف کے راستے میں حائل مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔ یہ ایک خط ہے جسے ضلعی عدلیہ کے ججز صاحبان نے اپنے ساتھ ہونیوالے جبر، امتیازی سلوک اور غیر انسانی رویے کے حوالے سے حقائق پر مبنی خط ہے۔ لکھنے والے ججز صاحبان کی بدنیتی نہیں نیک نیتی ضرور دکھائی دیتی ہے تاکہ سسٹم میں بہتری آئے۔ لکھتے ہیں۔
محترم جناب، چیف جسٹس آف پاکستان بصد ادب و احترام اور دل کی کڑی اذیت کیساتھ ہم پنجاب کی ضلعی عدلیہ کے ججز صاحبان آپکی خدمت میں یہ عرضداشت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔یہ خط نہ صرف ہماری ذاتی تکالیف کا بیان ہے بلکہ پورے عدالتی نظام کی بقا اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ سے بھی جڑی ہوئی تحریر ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے تحت، معزز چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری سے، ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ قائم کر رکھا ہے جو آئین، انسانی وقار اور عدلیہ کی آزادی کے منافی اقدامات کر رہا ہے۔ نتیجتاً ڈسٹرکٹ عدلیہ کے افسران غلامی اور قید و بند جیسی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ذیل میں چند سنگین معاملات پیشِ خدمت ہیں جن پر فوری توجہ ناگزیر ہے۔
1۔ ڈسپلن کے نام پر جبری غلامی۔ جج صاحبان کو صبح تا شام عدالت میں کرسی سے جکڑ کر بٹھائے رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، خواہ مقدمات موجود ہوں یا نہ ہوں۔ یہ غیر انسانی جبر کسی عدالتی مقصد کی تکمیل نہیں کرتا بلکہ نفسیاتی اذیت اور حبسِ بے جا کے مترادف ہے۔ 2۔ بلا جواز انکوائریوں کے ذریعے ہراسانی ایماندارانہ عدالتی فیصلوں کو بنیاد بنا کر من گھڑت انکوائریاں مسلط کی جاتی ہیں۔ اس رویے سے عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب پڑتی ہے اور دیانت دار افسران سخت دل شکنی کا شکار ہوتے ہیں۔3۔ ترقیوں اور ٹائم اسکیل سے محرومی عرصہ دراز کی بے داغ خدمات کے باوجود افسران کو ترقی اور جائز سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس سے وہ نہ صرف مایوس ہوتے ہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔4۔ کرے تو الزام، نہ کرے تو نااہلی اگر جج جلد فیصلے کریں تو کرپٹ قرار پاتے ہیں، اور اگر احتیاط سے کام لیں تو نااہل کہلائے جاتے ہیں۔ یہ زہریلا ماحول جج صاحبان کیلئے انصاف پر مبنی خدمات کا راستہ بند کر دیتا ہے۔ 5۔ انتقامی ذہنیت پر مبنی تقرریاں ۔بعض افراد کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اس نیت سے تعینات کیا جاتا ہے کہ وہ قیادت کی بجائے خوف اور جبر نافذ کریں۔ اس عمل نے پورے عدالتی ڈھانچے میں زہر گھول دیا ہے 6۔ ضمانت و اسٹے درخواستوں پر غیر آئینی رویہ ۔ہائی کورٹ کی بنچز اکثر ضمانت و اسٹے درخواستوں کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کے بجائے "واپس لی گئی” قرار دیتی ہیں اور ماتحت عدالتوں کو 1 تا 3 ماہ میں مقدمات نمٹانے کے غیر آئینی احکامات دیتی ہیں، جبکہ خود انہی درخواستوں کے فیصلے میں مہینوں لگا دیتی ہیں۔ یہ امتیازی رویہ ماتحت عدالتوں پر غیر قانونی دبا ہے اورفریقین کے مساوی حقوق پامال کرتا ہے اور انصاف کی فراہمی میں شدید عدم توازن پیدا کرتا ہے۔7۔ رخصت قواعد 2025 کی غیر انسانی پابندیاں ۔لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ "رخصت قواعد 2025” نہ صرف دیگر سرکاری محکموں اور صوبوں کے عدالتی افسران کے قواعد سے متصادم ہیں بلکہ جان بوجھ کر پنجاب کی عدلیہ کو اذیت، ذلت اور مشکلات میں مبتلا کرنے کے لیے بنائے گئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ قواعد رخصت کو آرام و سکون کے بجائے سزا بنا چکے ہیں۔8۔ گھٹن زدہ ماحول اور برین ڈرین ۔ ان سب عوامل نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں افسران عزت و وقار کے ساتھ خدمت کرنے کے بجائے نظام چھوڑنے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ نتیجتا ادارہ جاتی زوال اور برین ڈرین ایک سنگین خطرے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
مندرجہ بالا حالات کے تناظر میں یہ ہم ججز کی عاجزانہ گزارشات پیش ہیں۔ 1۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں لاہور ہائی کورٹ کے انتظامی ڈھانچے کی جامع انکوائری کی جائے۔ 2۔ رخصت قواعد 2025 کو فی الفور معطل کر کے نئے سرے سے مساوی حقوق کے مطابق، تشکیل دیا جائے۔3۔ تمام اہل افسران کیلئے شفاف اور میرٹ پر مبنی ترقی اور ٹائم اسکیل اپ گریڈیشن یقینی بنائی جائے۔ 4۔ عدالتی احکامات پر بلاجواز انکوائریوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ 5۔ ہائی کورٹ بنچز کے غیر آئینی احکامات کو روکا جائے جو ماتحت عدالتوں کو غیر فطری رفتار سے مقدمات نمٹانے پر مجبور کرتے ہیں۔ 6۔ عدلیہ میں خوف و ذلت کے کلچر کی بجائے عزت، وقار اور آزادی پر مبنی نظام نافذ کیا جائے۔ عدلیہ کی آزادی اس وقت ممکن ہے جب ضلعی عدلیہ کو غلامی، خوف اور ذلت کے بجائے آئینی وقار، مساوی حقوق اور عزت حاصل ہو۔ ہم یہ عرضداشت نیک نیتی اور اپنے حلف کی پاسداری میں لکھ رہے ہیں، مگر مجبور ہیں کہ بتائیں گھٹن، خوف اور ذلت کے ماحول میں انصاف فراہم نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنی امید آپکی بصیرت افروز قیادت سے وابستہ رکھتے ہیں کہ آپ نہ صرف پنجاب کے عدالتی افسران بلکہ پورے پاکستان کے نظامِ انصاف کو اس بحران سے محفوظ فرمائیں گے۔اس خط کو راقم آج کے کالم میں جگہ دے کر اپنا فرض نبھا رہا ہے تاکہ انصاف کے راہ میں حائل مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب آپ جس خلوص دل سے اس ملک کے ایک اہم ادارے کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں اور چلا بھی رہے ہیں۔اس کوشش میں ہم سب اپ کے ساتھ ہیں۔ امید ہے اس پر سوچ بچار کرتے ہوئے لوہر جوڈیشری کے جج صاحبان کی مشکلات کا ازالہ فرمائیں گے۔ شکریہ
اب بات ہو جائے نیا عدالتی سال دوہزار پچیس کی۔ اس بار یہ نیا عدالتی سال مختلف انداز میں سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوا۔اس سے قبل یہ نیا عدالتی سال سپریم کورٹ روم ون میں ہوا کرتا تھا۔ اب جبکہ ججز کی تعداد بڑھ کر پچیس ہو چکی ہے تو اس تعداد میں بنچ ون میں کرسیاں لگانا ممکن نہیں رہا لہٰذا سپریم کورٹ کے ایڈیٹوریم ہال میں یہ تقریب منعقد کی گئی۔اس موقع پر چیف جسٹس صاحب اپنے ساتھی ججز کو عزت دیتے ہوئے دکھائی بھی دیئے ۔اس تقریب میں جب جسٹس صلاح الدین پنہور تشریف لائے تو آپ کیلئے ججز کی قطار میں کرسی کم پڑ گئی، لہٰذا آپ تیسری صف میں وکلا کے نمائندے احسن بون کیساتھ بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس جو خود بھی سپریم کورٹ کے باقی ججز کیساتھ ایک جیسی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ فوری اٹھے اور جسٹس صلاح الدین پنہور کو بلا کر اپنی کرسی انہیں دی اور خود تیسری صف میں وکلا کے نمائندوں کیساتھ بیٹھ گئے۔ جسے دیکھ کر سب خوش ہی نہیں بہت خوش ہوئے۔ ججز اور وکلا کا یہ پہلا موقع تھا جب ایک ساتھ بنچ اور بار بیٹھے۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ثابت کیا کہ بنچ اور بار ایک گاڑی کے دو پہیہ ہیں۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے بتایا کیس سات فیصد، سے کم ہوکر پانچ اعشاریہ چار فیصد رہ گئے ہیں ۔سپریم کورٹ ججز کے اضافہ سے کیسوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین طاہر نصراللہ وڑائچ نے کہا کہ کریمنل کیسوں میں خاص کر ضمانتوں کے کیسوں کو فوری سنا جائے۔ صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا نے مطالبہ کیا کہ انصاف پر کی جانے والی مہنگائی کے خاتمہ کا اعلان کیا جائے ۔جسے فوری تسلیم کر لیا گیا۔ ویل چئیر افراد کے لئے عدالتوں میں جانے کیلیے رینپ بنا دئے گئے ہیں۔شکریہ۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بار کے ٹی ٹاک کارنر میں تشریف لاتے ہیں۔ وکلا سے ملتے ہیں۔اپ ٹینشن فری شخصیت کے مالک ہیں۔ججز سیکورٹی کو کم کر دیا ہے۔ چھٹیوں کے بعد ججز کو ملک سے باہر جانے سے روک دیا ہے کہ تقریریں نہیں کام کریں۔آپ پڑھتے سنتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ویل ڈن چیف جسٹس صاحب۔
کالم
لوئر جوڈیشری کے ججز کا خط اور نیا عدالتی سال
- by web desk
- ستمبر 15, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 8 Views
- 3 گھنٹے ago